فلسطین کا ہر شہر اور ہرقصبہ کسی نا کسی تاریخی اور تہذیب اثر، عمارات اور نوادرات کا امین سمجھا جاتا ہے۔ انہی میں غرب اردن کا شمالی شہر نابلس بھی ہے جو اپنے پہلو میں ایسے تاریخی مقامات کو سموئے ہوئے ہے جو قدیم وجدید انسانی تہذیبوں، اسلامی فن تعمیر اور تہذیب وثقافت رفتہ کا کے وسیع ذخائر سے مالا ہے۔ گوکہ نابلس کا یہ پیش بہا تاریخی خزانہ قابض صہیونیوں کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ مرور زمانہ کے ساتھ ان تاریخی وتہذیبی مقامات کی اہمیت میں اضافے کےساتھ ان کی بقاء کو بھی سنگین چیلنج درپیش ہیں۔
نابلس کے تمام تاریخی ثقافتی مراکز پر سیرحاصل بحث کی جائے تو اس کے لیے ایک دفتر بھی کم پڑے گا مگر یہاں چند ایک مقامات کے بارے میں آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔
)تل بلاطہ(بلاطہ ٹیلہ
نابلس کے قدرتی اور تاریخی حسن وجمال کو چار چاند لگانے والے مقامات میں ایک ’’تل بلاطہ‘‘ ہے۔ شہر کے مشرق کی سمت میں واقع یہ جگہ 3000 مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ تل بلاطہ کے گرد صدیوں پرانی دیواریں آج بھی اس جگہ کی تہذیب اور ثقافتی اہمیت کی گواہ ہیں۔ 10 اور 12 میٹر دیواریں برونز دور کے فن تعمیر کا ان منٹ نقوش ہیں مگر اب انہیں بھی غاصب صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے۔
تل بلاطہ میں کنعانی دور کے بنے بلند وبالا برج آج بھی اس جگہ کی عظمت رفتہ کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ برج اس علاقے کی دفاعی اہمیت کے پیش نظر بنائے گئے جہاں سے شہر پناہ کے محافظ شہربلاطہ میں آنے جانے والوں پر نظر رکھاکرتے۔ ان ابراج کے گردو پیش پرانے دور کے بنے مکانات بالخصوص سولہویں، سترہویں اور انیسویں صدی کے مکانات کے کھنڈرات بھی موجود ہیں۔
مشرقی رومانی قبرستان
تل بلاطہ سے کوئی ایک کلو میٹر دور ’’رومانی قبرستان‘‘ نابلس کے پرانے اور تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ قبرستان شہر کے وسط سے گذرنے والی شاہراہ عمان کے دونوں اطرف میں عسکر قصبے کےقریب کئی قوس پر پھیلا ہوا ہے۔ بعض تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قبرستان میں پہلی صدی عیسوی کے قبریں موجود ہیں۔ اس قبرستان میں صدیوں پرانے مقبرے اور گنبد ومینار موجود ہیں۔ بیشتر مقبرے اور گنبد ’’ھیلینستیہ‘‘ نامی تہذیب کے فن تعمیر کی یاد دلاتے ہیں۔ صدیوں پہلے ہی نابلس شہر کی ہر اہم شخصیت کو اسی قبرستان میں سپرد خاک کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قبرستان کو بزرگان کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔
مغربی رومانی قبرستان
نابلس میں دو رومانی قبرستان ہیں۔ اوپر کی سطور میں مشرقی رومانی قبرستان کا تعارف کرایا گیا جس میں پہلی صدی عیسوی کی قبریں موجود ہیں۔ شہر کے مغرب میں مغربی رومانی قبرستان بھی صدیوں پرانا ہے۔ اس کے بارے میں بھی یہی قیاس ہے کہ اس کی بنیاد پہلی صدی عیسوی میں رکھی گئی تھی۔ پانچویں صدی عیسوی تک یہاں قبریں ڈالی جاتی رہیں۔ اس کے بعد سنہ 1946ء تک اس قبرستان کے آثار کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ تا آنکہ سنہ 1960ء میں بیسویں صدی میں مغربی رومانی قبرستان کا پتا چلتا ہے۔ کھدائی کے دوران یہاں کئی غاریں بھی سامنے آئیں۔ تراشیدہ پتھروں سے بنے گنبد اور مقبرے رومن دورکی یاد تازہ کرتے ہیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کا کنواں
نابلس شہر کو ایک نسبت جلیل القدر پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام سے بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کے جلیل القدر پیغمبرحضرت یعقوب علیہ السلام نے بیت المقدس سے الجلیل شہر کے سفر کے دوران یہاں قیام کیا۔ انہوں نے ایک کنواں کھودا جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔
چوتھی صدی عیسویں میں یہاں پر ملکہ ہیلانہ نے ایک گرجا گھر تعمیر کرایا۔ یہ گرجا گھر ہندوستانی طرز تعمیر پر بنایا گیا۔ فتح فلسطین کی عرب اور مسلمانوں کے ادوار کی جنگجوں میں یہ گرجا گھر سلامت رہا۔
سنہ 1009ء میں بئر یعقوب پر بنا گرجا گھرفاطمی سلطنت کے دوران مسمار کردیا گیا مگر 1154ء میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔1187ء میں صلیبیوں نےپھر مسمار کیا اور 1555ء میں آرتھوڈوکس عیسائیوں کی مطالبے پر عثمانی خلیفہ نے دوبارہ اس کی تعمیر کرائی تھی۔ اس جگہ آج بھی گرجا گھر موجود ہے جس کے اندر حضرت یعقوب کا کنواں موجود ہے جو چالیس میٹر گہرا ہے۔
قدیم شہر
نابلس کا موجودہ شہر دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک پرانا شہر اور دوسرا جدید شہر کہلاتا ہے۔پرانا شہر صدیوں پرانے دور کی بنی عمارات کے کھنڈرات پر مشتمل ہے۔ جس میں مختلف تہذیبوں کے دور کے فن تعمیر کی آج بھی عکاسی کی جاسکتی ہے۔
فلسطین کے قدیم ترین تاریخی مقامات کا تقابل کرتے ہوئے نابلس کے پرانے شہر کو زیادہ قدیم نہیں سمجھا جاتا تاہم اس میں بعض تاریخی مساجد، حمام ممالیک عہد اور عثمانی ترکوں نے آج سے چار سو سال پیشتر تعمیر کیے تھے۔
نابلس قدیم شہر کے گرد فیصل شہر بھی بہت پرانی ہے جسے ممالیک کے دور میں شہر پناہ کے لیے بنایا گیا۔ آج بھی اس دیوار کے بیشتر حصے اپنی جگہ موجود ہیں جو شہر کی عظمت رفتہ اور مسلمانوں کے پرانے فن تعمیر کی یاد دلاتےہیں۔
کچھ عرصہ قبل یہاں پر کی گئی کھدائیوں کے دوران رومن دور کے مکانات کا بھی انکشاف ہوا۔ راس العین کالونی کے قریب پرانے شہر کی مغربی سمت میں رومن دور کی بنی راہ داریاں اور ستونوں کی سڑک بھی دریافت کی گئی۔
شہر کی تاریخی مساجد
نابلس شہر صدیوں پرانی مساجد کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ مسجد الصلاحی، مسجد النصر، مسجد الحنبلی، مسجد الخضر اور مسجد الانبیا کی عمریں کئی سو سال بتائی جاتی ہیں۔
تاریخی مقامات کی بقاء کا چیلنج
فلسطینی محکمہ سیاحت وآثارقدیمہ نے نابلس شہر کے ان تاریخی مقامات کے تحفظ کے لیے کوششیں کی ہیں مگر جہاں ایک طرف فلسطینی حکام تاریخی مقامات کو بچانے میں سرگرم ہیں تو وہیں غاصب صہیونی یا تو انہیں یہودیت کا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں ان آثار قدیمہ کو نقشے سے مٹانے کی مذموم مہمات چلاتے ہیں۔
نابلس کی وزارت آثار قدیمہ کے عہدیداروں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہودی اشرار اور صہیونی انتظامیہ کی دست برد سے نابلس کے تاریخی مقامات کو بچانا ایک مشکل چیلنج ہے مگر حکومت اس حوالے سے موثر کوششیں کررہی ہے۔
وزارت آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ نابلس شہر میں واقع تاریخی تہذیبی مقامات فلسطینی قوم کا تہذیبی ورثہ ہیں جن کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ ان مقامات کے تحفظ اور بقاء کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ اس کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس نے آثار قدیمہ کو بچانے میں مدد دینے والے ملکوں اور اداروں کے ساتھ بھی رابطے کیے ہیں تاکہ نابلس کے آثار قدیمہ کو بھی محفوظ بنایا جاسکے۔ تل بلاطہ کی مرمت کے لیے عالمی سطح پر امداد فراہم کی گئی تھی جس کی مرمت کے بعد اب اسے سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
وزارت آثار قدیمہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہودی شرپسند نابلس کے تاریخی مقامات کے اثار اور نوادارت چوری کرنے کی سازشیں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شہر کی پرانی عمارات کے پتھر چوری کیے جا رہے ہیں۔ صہیونی ریاست یہاں کے تاریخی مقامات کو یہودیوں کے تاریخی ورثے سے جوڑنے کی سازشیں بھی کررہی ہے۔ شہر کی تاریخ کو مسخ کرنے کی مہم جاری ہے اور ساتھ ہی فلسطینی انتظامیہ کو ان مقامات کی ترمیم ومرمت پر پابندیاں بھی عائد کی جا رہی ہیں۔