دیر البلح (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اس رپورٹ میں ایک ایسے فلسطینی نوجوان کا تعارف ہے جس کے دست ہنر میں کئی کمالات پوشیدہ ہیں مگر بے روزگاری نے اسے ایک تجریدی آرٹسٹ کا شعبہ چھوڑ کر ترکھان کا کام کرنے پر مجبور کردیا۔
رپورٹ میں فلسطینی سابق اسکول ٹیچر اور آرٹسٹ کی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یاسر دحلان کا تعلق غزہ کی پٹی کے علاقے دیر البلح سے ہے۔ وہ شروع میں تو مختلف اسکولوں میں آرٹس کے استاد کے طورپر کام کرتے رہے مگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے انہیں دیگر سیکڑوں اساتذہ کے ساتھ جب تنخواہوں سے محروم کردیا گیا تو انہیں اپنا کام چھوڑنا پڑا۔اسکول میں درس وتدریس کی خدمات کے ساتھ اپنے فارغ اوقات میں یاسر دحلان دیواروں، کتبوں اور دیگر اشیاء پرآرٹس کے فن پارے تیار کرنے میں لگے رہتے۔ غزہ کی پٹی کے عوام زندہ دل ہونے کے ساتھ غریب ہیں۔ وہ آرٹ اور فن کی دل سے قدر کرتے ہیں مگر اس فن کی حوصلہ افزائی کے لیے مالی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ یاسر دحلان کے آرٹ اور فن پاروں کا غزہ میں کوئی خاص مالی فائدہ نہیں مل سکا۔
العز بن عبدالسلالم اسکول میں آرٹس کے سابق استاد کو فلسطینی اتھارٹی کے محکمہ تعلیم نے تنخواہیں ادا کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد انہیں اپنے خاندان کو مالی سپورٹ کے لیے دیگرذرائع اختیار کرنا پڑے۔
ابھرتا فن کار
33 سالہ یاسر دحلان کو بچپن ہی سے خاکہ سازی کا شوق تھا اور وہ اپنا یہ شوق کاغذ پر مختلف شخصیات کی تصاویریا مختلف مناظر کو تصاویر کے قالب میں ڈھال کر پورا کرتا۔۔ اس نے اپنے فن پاروں کو تھری ڈی نظام میں منتقل کرنے کی بھی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے لکڑی کی تختیوں پر مختلف شخصیات کی تصاویر اور پورٹریٹ تیار کیے۔ میں ایک ایسے اسکول میں اپنے فن کو جلا بخشوں جہاں مجھے زیادہ سے زیادہ پیشہ وارانہ انداز میں کام کرنے کا موقع ملے۔ میں نے کچھ عرصہ ایک ایسے اسکول میں کام بھی کیا۔
یاسر نے مقامی سطح پرآرٹس کے فن پاروں کی مختلف نمائشوں میں بھی حصہ لیا اور اپنے فن پارے ان کے سامنے پیش کیے۔ اس نے کئی فن پارے وزارت تعلیم کی فرمائش پر بھی تیار کیے مگر حکومت نے ان کے فن کی کوئی قدر نہیں کی۔ غزہ کی پٹی پر مسلط معاشی پابندیوں اور حکومت کی انتقامی پالیسی کے نتیجے میں وہ تجریدی آرٹ کا شعبہ چھوڑ کر فرنیچر سازی کی طرف مائل ہوگئے۔
فلسطینی نوجوان اور ابھرتے ہوئے آرٹسٹ یاسر دحلان کے فن پاروں میں فلسطین کے سماجی حالات کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ قضیہ فلسطین کو بھی اپنے مخصوص تجریدی آرٹ سے اجاگر کرنے کی کامیاب اور مؤثر کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اپنے فن کو مزید فروغ دینے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لیے وہ انٹرنیٹ پر فن پاروں کا باریکی اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں یاسر دحلان نے کہا کہ کامیاب آرٹسٹوں کا اہم شخصیات کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ وہ ممتاز شخصیات کے فن پارے تیار کرتے اور ان کی منشا کے آرٹس بنواتے ہیں مگر انہیں افسوس ہے کہ غزہ کی پٹی میں انہیں اپنے فن کو اجاگر کرنے کا موقع نہیں ملا۔
آرٹ اور بڑھئی کا پیشہ
یاسر دحلان کو پڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ وہ اسکول میں تدریس کے شعبے سے استعفے کی بھی کوشش کرتے رہے ہیں مگر فراغت کے بعد بے روزگاری کا خیال انہیں استعفیٰ نہ دینے پر مجبور کرتا رہا۔ غزہ میں مسلسل بحرانوں، مالی مشکلات تنخواہ کی بندش اور فن پاروں سے حاصل ہونے والی قلیل آمدنی نے یاسردحلان کو کوئی اور پیشہ اپنانے پر مجبور کردیا۔
ایک سوال کے جواب میں یاسر دحلان نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اس کے ایک دوست نے اسے کہا کہ میں اس کے لیے اپنے آرٹ کی شکل میں ایک کرسی تیار کروں۔ اس نے مجھے کہا کہ میں انٹرنیٹ پر ایک اشتہار پوسٹ کروں جس میں کسی شخص سے مالی معاونت کے درخواست دوں۔ اس کے بعد میں نے لکڑی سے مختلف چیزیں تیار کرنا شروع کردیں، جن میں کرسیاں، میز، صوفے اور گھروں میں استعمال ہونے والا دیگر فرنیچر شامل ہے۔
یاسر کا کہنا ہے کہ اس کے فرنیچر سازی کے کام کو بھی لوگوں نے بے حد پسند کیا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں اس کے کام کو دیکھنے اور فرنیچر خریدنے آتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ آج بھی آرٹس سے رغبت رکھتے ہیں تو اس کا کہنا تھا کہ تجریدی آرٹ اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور وہ موقع پا کر آج بھی فن پارے تیار کرتا رہتا ہے۔ زیادہ تر اس کے دوست احباب اپنی پسند کے فن پارے بنواتے ہیں۔ تاہم یہ آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ نہیں۔ وہ موجودہ حالات سے مایوس ہے اور اس کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے اندر آرٹس اور فن پاروں کی تیاری کا کوئی فائدہ نہیں۔