فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مرکزاطلاعات فلسطین نے آنجہانی ہیلاریون کابوشی کی زندگی ،حالات زندگی اور ان کے کارناموں پر روشنی ڈالی ہے۔ فلسطین کی آزادی پر یقین رکھنے والے عیسائی کھیتولک فرقے کے سرکردہ پادری درحقیقت ایک فلسطینی جہد کار اورمجاھد تھے۔ سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد اپنی وفات تک انہوں نے فلسطینی قوم کے لیے ان تھک جدوجہد کی۔ کئی سال تک قید وبند کی صعوبتیں جھلیں اور سفاک صہیونیوں کا جبرو ستم پوری اولوالعزمی کے ساتھ برداشت کیا۔ آخر کر دشمن نے خوف زدہ ہو کر انتقامی سیاست کا نیا رخ اپنایا اور ہیلاریون کابوچی کو فلسطین بدر کردیا گیا۔
عیسائی پادری کابوچی 94 ÂÂ سال کی عمرانتقال کرگئے۔ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور فلسطین کی دوسری تنظیموں، مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں نے بھی بشپ ہلارین کے انتقال پرملال پ گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا۔ حماس رہنما اور جماعت کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن عزت الرشق نے اپنے بیان میں آنجہانی عیسائی پادری ہلارین کابوچی کی خدمات کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ کابوچی کے انتقال پر فلسطینی قوم ایک عظیم مجاھد اور محبت وطن شخص سے محروم ہوگئی۔ کابوچی نے اپنی پوری زندگی فلسطینی قوم کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ انہوں نے فلسطینیوں کے حقوق انہیں عادلانہ اور منصفانہ طور پر فراہم کرنے کا ہرقدم پر مطالبہ کیا اور ہر محاذ پر ڈٹ کر اپنا موقف پوری جرات کے ساتھ پیش کیا۔ حماس اور فلسطینی قوم عیسائی مذہبی رہنما کی قوم کے لیے قربانیوں اور خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
ہلارین کابوچی کون تھے؟
اتوار یکم جنوری 2017ء کو اٹلی کے صدر مقام روم میں فوت ہونے والے عیسائی پادری کا مذہبی تعلق رومن کیتھولک چرچ سے تھا اور وہ 1922ء کو شام کے شہرحلب پیدا ہوئے۔ بعد ازاں ان کا خاندان بیت المقدس منتقل ہوگیا جہاں 1965ء کو انہیں بیت المقدس میں عیسائی چرچ کا پادری مقرر کیا گیا۔ سنہ 1974ء کومزاحمت کی حمایت کی پاداش میں صہیونی فوج نے گرفتار کیا اور ان کے خلاف ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت نے انہیں فلسطینی تحریک آزادی کو سپورٹ کرنےاور فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسلحہ فراہم کرنے کے الزام میں 12 سال قید با مشقت کی سز سنائی۔ جیل میں ڈالے جانے کے بعد ویٹی کن پوب[پاپائے روم] نے مداخلت کی اور اسرائیل نے انہیں اٹلی جلا وطن کردیا۔ بقیہ زندگی انہوں نے اٹلی کے دارالحکومت روم میں بسرکی۔
گرفتاری، تشدد اور جلاوطنی سمیت صہیونی ریاست کے تمام ظالمانہ ہتھکنڈے پوپ ہلارین کابوچی کو فلسطینی قوم کی معاونت اور جدو جہد آزادی کے لیے مسلح مزاحمت کی حمایت سے باز نہیں رکھ سکے۔ وہ جلاوطن رہ کربھی اپنے زبان وقلم سے جہاد آزادی فلسطین میں بھرپور طریقے سے حصہ لیتے رہے۔ فلسطینی قوم کی بے لاگ حمایت پرانہیں نہ صرف عرب اور مسلمان ممالک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے حلقے اور زندہ ضمیر لوگ ان کا تہہ دل سے احترام کرتے تھے۔
مسلح تحریک آزادی کا پرجوش حامی
فلسطین قوم سے بچھڑنے والے عظیم عیسائی رہنما بشپ کابوچی کا شمار فلسطین کے مسلح مزاحمت کاروں میں بھی ہوتا ہے۔ وہ تحریک فتح سے وابستہ ایک عسکری تنظیم میں بھی سرگرم رہے اور یہ مزاحمتی سیل فلسطین پر قابض صہیونی افواج کے خلاف حملوں میں پیش پیش رہا۔ انہوں نے اپنی ذاتی گاڑی (کار) کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کاروں اور مجاھدین کو اسلحہ فراہم کیا۔ متعدد مزاحمتی سرگرمیوں کے بعد صہیونی انٹیلی جنس ادارے یہ سراغ لگانے میں کامیاب رہے کہ ہلارین کابوچی بھی صہیونی ریاست کے خلاف جاری مسلح فلسطینی مزاحمت میں شامل ہیں۔ صہیونی انٹیلی جنس اداروں نے ان کی سرگرمیوں اور نقل وحرکت پر نظر رکھنا شروع کردی۔ ایک بار صہیونی فوج نے دعویٰ کیا کہ ہیلارین کابوچی کی ذاتی کار اسلحہ اور گولہ بارود کی بھاری مقدار لادے بیت المقدس کی طرف رواں دواں ہے۔ کار میں کابوچی اور ان کے معاون سوار ہیں۔ صہیونی فوج کے بہ قول پولیس نے مشتبہ کار کو روک کر تلاشی لی تو کار کے اندر سے دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا۔
صہیونی پولیس نے کابوچی اور ان کے معاون کو حراست میں لے کر تفتیش کے لیے بیت المقدس میں ’مسکوبیہ‘ پولیس سینٹر منتقل کردیا۔ صہیونی فوج نے دعویٰ کیا کہ کار کے اندر سے چار کلاشنکوفیں، دو پستول، پلاسٹک کے تھیلوں میں رکھا گیا بارود، بجلی کی تاریں، دستی بم اور ہزاروں کی تعداد میں گولیاں قبضے میں لی گئیں۔
اسی کیس میں صہیونی حکام نے ہلارین کابوچی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا اور آخر کار انہیں فلسطینی مزاحمت کاروں کو سپورٹ کرنے کے جرم میں بارہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
محصورین غزہ کے معاونت کار
فلسطین میں رہتے ہوئے عیسائی پادری ہیلارین کابوچی نے بہ نفس نفیس تحریک آزادی میں حصہ لیا اور قابض صہیونیوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف بندق اٹھائی۔ جلاوطن کے بعد وہ اپنی زبان وقلم سے تحریک آزادہ کا حصہ بن گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلسطین سے باہر کی دنیا میں مظلوم فلسطینی قوم کے لیے ایک متحرک سماجی خدمات انجام دیں۔ سنہ 2009ء میں لبنان سے فلسطین کے محصورعلاقے غزہ کے لیے بھیجے گئے امدادی قافلے میں شرکت کی۔ بعد ازاں مئی 2010ء میں اس عالمی امدادی قافلے’فریڈم فلوٹیلا‘ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں شامل ترکی کے ایک بحری جہاز’مرمرہ‘ پر کھلے سمندر میں اسرائیلی بحریہ نے شب خون مار کر10 ترک امدادی کارکن شہید اور 50 زخمی کردیے تھے۔
صہیونی فوج نے امدادی قافلے کے ہمراہ آنے والے600 عالمی امدادی کارکن گرفتار کیے جن میں ہلارین کابوشی بھی شامل تھے۔