فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں نے واضح طور پر صہیونی انتظامیہ کو باور کرایا ہے کہ انہیں مسجد اقصیٰ میں نام نہاد سیکیورٹی اقدامات قبول نہیں۔ فلسطینی قبلہ اوّل کا سابقہ اسٹیٹس کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے اور ایسی کسی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں قبلہ اوّل کے تقدس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ فلسطینی شہریوں نے باب الاسباط کے باہر دھرنا دینے کے ساتھ ساتھ واضح کیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے دروازوں کے باہر میٹل ڈیٹکٹر نصب کرنا، کیمرے لگانا اور دیگر سیکیورٹی رکاوٹیں فلسطینیوں کی توہین اور تذلیل کے مترادف ہیں۔
باب Â الاسباط ہی کیوں؟
بیرزیت یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد ڈاکٹر نظمی الجعبہ نے مسجد اقصیٰ کے باب الاسباط کے باہر فلسطینیوں کی موجودگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ دراصل باب الاسباط مسجد اقصیٰ اور حرم قدسی کے قریب ترین دروازہ ہے۔ یہ ایک طرف تو مسجد اقصیٰ کے قریب ہے اور دوسری طرف پرانے بیت المقدس تک رسائی کے لیے بھی یہ آسان اور مختصر راستہ ہے۔ نیز یہاں تک براہ راست بسیں اور گاڑیاں پہنچ سکتی ہیں۔ اس لیے پیدل اور گاڑیوں پر سوار افراد زیادہ سے زیادہ یہاں پر ہی اترتے ہیں۔ اس لیے باب الاسباط دفاع قبلہ اوّل کا ’آئیکون‘ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ باب الاسباط کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے باہر ایک وسیع صحن ہے جہاں پر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہونے کے ساتھ ساتھ نماز ادا کرسکتے ہیں۔
باب الاسباط میں زیادہ فلسطینیوں کے جمع ہونے کی ایک وجہ یوسفیہ قبرستان سے اس دروازے کی قربت بھی ہے۔ یوسفیہ قبرستان کی طرف سے آنے والے فلسطینی پہلے باب الاسباط ہی پر پہنچتے ہیں۔ اس کے علاوہ باب الرحمہ قبرستان سے بھی یہ دروازہ قریب پڑتا ہے۔ یہاں پر فلسطینیوں کی دن بھرآمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
ڈاکٹر الجعبہ کا کہنا ہے کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں سے آنے والے افراد بھی اپنی بسیں یہاں کھڑی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس میں قبلہ اوّل کے حوالے سے باب الاسباط کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
ڈاکٹر الجعبہ کا کہنا ہے کہ باب الاسباط ویسے قبلہ اوّل کےدیگر دروازوں ہی کی طرح ایک دروازہ ہے۔ اسے الگ سے کوئی خاص تقدس حاصل نہیں۔ البتہ گذشتہ کئی برسوں سے باب الاسباط مسجد اقصیٰ میں داخلے کا راستہ ہونے کے ساتھ ساتھ دو بڑے قبرستانوں تک رسائی کا بھی راستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس باب قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔
مزاحمتی تجربہ
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر الجعبہ کا کہنا ہے کہ باب الاسباط کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کا آغاز اسی دروازے سے ہوا۔ القدس، الخلیل اور نابلس کے لوگ اسی جگہ جمع ہوئے اور وہاں سے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں اریحا کا سفر شروع کیا۔
اس کے علاوہ باب الاسباط کی ایک نسبت سابق فلسطینی مفتی اعظم الحاج امین الحسینی کے ساتھ بھی ہے۔
سنہ 1967ء کی جنگ کے دوران باب الاسباط میں عرب فوج کا ایک گروپ قلعہ بند ہوگیا اور وہ آخر تک صہیونی فوج کے ساتھ لڑتے رہے۔ صہیونی فوج اسی راستے سے قبلہ اوّل میں داخل ہوئے اور فلسطینی شہریوں نے صہیونی فوج کے خلاف باب الاسباط کے مقام پر بھرپور مزاحمت کی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر الجعبہ کا کہنا ہے کہ باب الاسباط ممالیک فرمانروا الظاھر بیبرس کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ ترک فرمانروا سلطان سلیمان القانونی نے 1817ء کو اس کی دوبارہ مرمت کی۔ مغربی دیوار کی سمت سے مسجد اقصیٰ کا یہ واحد راستہ ہے۔ مغربی بیت المقدس کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں نمازوں کی ادائیگی کے لیے آنے والے فلسطینی باب الاسباط ہی سے اندر داخل ہوتے ہیں۔ یہاں پر صہیونی فوج نے کئی چوکیاں بھی قائم کررکھی ہیں جہاں فلسطینی نمازیوں کو روک کر ان کی تلاشی لی جاتی ہے۔