کردستان کے عوامی ریفرینڈم کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن خصوصی دورے پر ایران پہنچے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کردستان کی نام نہاد آزاد ریاست کے حوالے سے ترکی اور ایران کے موقف میں غیرمعمولی ہم آہنگی موجود ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شام کے محاذ جنگ پر ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ایران اور ترکی کو 25 ستمبر 2017ء کو صوبہ کردستان میں ہونے والے عوامی ریفرینڈم نے ایک فورم پر لا کھڑا کیا ہے۔ عراق اور ترکی کے درمیان بھی پچھلے کچھ عرصے سے کشیدگی رہی ہے مگر کردستان کے ریفرینڈم نے انقرہ کو تہران اور بغداد دونوں کے قریب کردیا۔
اقتصادی مفادات
ترکی اور ایران دو بڑی معاشی قوتیں ہیں اور دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی اور معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ ایران کو ترکی کے توانائی کے وسائل کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے جب کہ ایران کی خواہش ہے کہ وہ ترکی کے راستے تیل اور گیس یورپ تک سپلائی کرے۔ تاہم عراق اور شام کے مسائل پر دونوں ملکوں کے الگ الگ سیاسی نقطہ ہائے نظر نے انہیں ایک دوسرے کے قریب نہیں ہونے دیا۔
اب چونکہ کردستان میں آزادی ریفرینڈم نے ترکی کو عراق اور ایران دونوں کے قریب کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست اس قربت کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ اسرائیل اور ترکی کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے تناؤ کی کیفیت رہی ہے۔ سنہ 2010ء میں ترکی کے فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان لانے والےبحری جہاز پر اسرائیلی نیوی کمانڈوز کے حملے نے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات ختم کردیے تھے تاہم سنہ 2016ء میں شہداء اور زخمیوں کے لواحقین کو ہرجانہ کی ادائی اور ترکی سے باضابطہ معافی مانگنے کے بعد انقرہ اور تل ابیب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے تھے۔ سفارتی روابط کی بحالی کے باوجود دونوں ملکوں میں گرم جوشی پر مبنی تعلقات نہیں رہے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ ترکی مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت میں اصولی موقف ہے جسے اسرائیل سخت ناراضی کا اظہار کرتا ہے۔
اسرائیل کےنیشنل سیکیورٹی اسٹڈی انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران اور ترکی کے درمیان بڑھتی قربتیں اسرائیل کے مفاد میں نہیں۔ ترکی اور ایران کے درمیان بڑھتی قربتوں کا مطلب یہ ہے کہ انقرہ خطے میں ایرانی مداخلت کو قبول اور ایران کے استحکام میں معاونت کے لیے کام کرے گا جو کہ اسرائیل کے لیے قابل قبول ہرگز نہیں ہوسکتا۔
دونوں ملکوں (ترکی اور ایران) میں روابط میں اضافہ دو طرفہ اقتصادی مفادات کو فروغ دے گا۔ ایران ترکی کے راستے تیل اور گیس پائپ لاین یورپی تک بچھانے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ اسی طرح ایران کی یورپی منڈیوں تک رسائی کی راہ ہموار ہوگی جب کہ یورپی مصنوعات ایران تک براہ راست پہنچنا شروع ہوگا۔ اس طرح خطے میں بھی ایران کا اثرو رسوخ بڑھ جائےگا۔ ایران کی معیشت بہتری کا سفر شروع کرے گی اور ایران پر عائد کی گئی طویل پابندیوں کے اثرات کم ہوں گے۔
قربت میں رکاوٹیں
ترکی اور ایران کے درمیان بعض مسائل قربت میں رکاوٹ بھی بن سکتے ہیں۔ اگر امریکا ایران کے ساتھ طے پائے جوہری پروگرام پر سمجھوتے سے دست بردار ہوتا ہے جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں، اسرائیل کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث جب کہ ایران اور ترکی کے درمیان دوری پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر امریکا ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں یورپی ممالک اور ترکی پر بھی ایران سے فاصلے بڑھانے کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
اگر امریکی صدر کے ایران بارے کسی نا مناسب فیصلے کویورپی ملکوں کی طرف سے حمایت حاصل ہوتی ہے تو ایران اس چیلنج سے تنہا نہیں نمٹ سکتا۔ اس طرح ایران اور ترکی کے درمیان کرستان کے معاملے پر تعاون متاثر ہوگا اور خطے میں اقتصادی اسٹریٹیجی بھی کامیاب نہیں ہوگی۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے پر نظر ثانی پر غور کررہا ہے۔ ان کا اشارہ واضح ہے۔ وہ تہران کے جوہری پروگرام پر سمجھوتے سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں۔
ادھر دوسری جانب شام کے بحران پر ایران اور ترکی کا متضاد موقف بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے فروغ میں رکاوٹ رہے گا۔
حالیہ عرصے میں آنے والی رپورٹس میں شام کے شہر ادلب میں روس، ایران اور ترکی کے درمیان گیرمسبوق کورآرڈینیشن بھی دیکھا گیا۔ تینوں ممالک شام میں جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں تاکہ شام میں کردوں کے بڑھتے قدم روکے جاسکیں۔