اپنے اس مذموم اور مکروہ ہدف کےحصول کے لیے فلسطینیوں کے خلاف فوجی اور پولیس طاقت کے استعمال سمیت تمام نسل پرستانہ حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
گذشتہ چند برسوں سے مشرقی بیت المقدس میں صہیونی آبادی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا جب کہ فلسطینی آبادی کو طرح طرح کے انتقامی حربوں کے ذریعے شہر سے بے دخل کرنے کی کارروائیوں میں شدت آئی۔ القدس کے فلسطینی باشندوں کے خلاف منظم انداز میں نسل پرستانہ سرگرمیاں شروع کی گئیں۔ مشرقی بیت المقدس خاص طورپر صہیونی ریاست کا ہدف ہے۔ یہاں پرمقیم فلسطینی آبادی پرعرصہ حیات تنگ کرنے کے لیےان کی اراضی اور املاک غصب کی گئیں، مکانات مسمار کیے جانے لگے۔ فلسطینی آبادی کو اس وقت مشرقی بیت المقدس میں بدترین رہائشی مسایل کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ اسرائیلی انتظامیہ فلسطینیوں کو مکانات تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیتی بلکہ الٹا ان کے مکانات کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ چار و ناچار فلسطینی القدس چھوڑ کر متبادل شہروں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ اسرائیل یہی چاہتا ہے کہ فلسطینی آبادی مشرقی بیت المقدس کی حدود سے باہر نکل جائے تاکہ یہاں پرصرف صہیونیوں کی مذہبی، سیاسی اور آبادیاتی اجارہ داری قائم کی جاسکے۔
آبادی
مشرقی بیت المقدس میں صہیونی آبادی کی تعداد میں مسلسل اضافہ اسرائیلی ریاست کی تزویراتی حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی کو اسرائیل کی کسی ایک حکومت یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت نہیں بلکہ صہیونی ریاست، تمام سیاسی، مذہبی اور دیگر جماعتوں کی اشیر باد حاصل ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں ہرخالی جگہ صہیونی کالونیوں میں تبدیل کرنے کی مجرمانہ کوشش کی گئی، یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
اسرائیلی حکومتوں نے اپنی تمام تر توجہ بیت المقدس میں صہیونی کالونیوں کی تعمیر پرمرکوز کیے رکھی۔ آج اسرائیل کسی حد تک اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوچکا ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں باہر سے لا کر بسائے گئے صہیونی نوآباد کاروں کی تعداد ایک لاکھ 65 ہزار جب کہ فلسطینی آبادی ایک لاکھ 60 ہزار 800 ہے۔
مشرقی اور مغربی بیت المقدس میں صہیونیوں کی تعداد چار لاکھ 60 ہزار 400 ہے جو کہ کل آبادی کا 71.7 فی صد ہے۔ بڑی تعداد میں مزید صہیونیوں کو بسانے کے لیے تعمیراتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ جب کہ فلسطینی آبادی بیت المقدس کی کل آبادی کا صرف 22 فی صد رہ گئی ہے۔
رقبہ
مشرقی اور مغربی بیت المقدس میں جوں جوں صہیونی آبادی کی تعداد بڑھتی یا بڑھائی جاتی جا رہی ہے توں توں ان آباد کاروں کی رہائشی ضروریات کے لیے مکانات، تجارتی مقاصد کے لیے عمارتیں، بازار، بنیادی ڈھانچے کے لیے سڑکیں، پل اور ریلوے لائن سمیت دیگر منصوبوں پر کام کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کی ملکیت میں بچ جانے والی اراضی بھی تیزی کے ساتھ ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے۔ فلسطینی شہریوں کو اپنی اراضی پرگھر یا کوئی بھی دوسری عمارت تعمیر کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی فلسطینی اجازت کے بغیر ایسا کرتا ہے تو اسے نہ صرف جرمانہ کیا جاتا ہے بلکہ اس کے گھر یا دوسری املاک کو مسمار کردیا جاتا ہے۔
صہیونیوں کے لیے یہاں بھی معاملہ مختلف ہے۔ ان کے لیے جہاں چاہیں مکان بنانے اور تعمیرات کی کھلی چھٹی ہے۔ بیت المقدس میں مکانات کی تعمیر کی اجازت نہ ملنے کے باعث القدس کے فلسطینی باشندے رہائش کے لیے غرب اردن کے علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔
القدس کی حدود میں تبدیلی
سنہ 1948ء سے 1967ء تک القدس کی حیثیت ’ Corpus Spiratum‘کی تھی اور یہ علاقہ بین الاقوامی نگرانی میں تھا۔ اکتوبر 1947ء کو جنرل اسمبلی کی قرارداد 181 میں اراض فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ ان میں ایک ریاست یہودیوں اور دوسری فلسطینیوں کے لیے تجویز کی گئی۔ فلسطینیوں نے جنرل اسمبلی کی قرارداد مسترد کردی کیونکہ اس میں فلسطین کو صہیونیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مساوی تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔ صہیونیوں کو 52.5 فی صد رقبہ دیا گیا۔ اس سے قبل یہ علاقے برطانوی حکومت کے قبضے میں تھے۔
فلسطین کے 94 فی صد رقبے پر فلسطینی قوم ہی کا قبضہ تھا۔ مگر اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد فلسطینیوں کے حصے میں اس میں سے 44.5 فی صد علاقہ ہی آیا جب کہ 55.5 فی صد یہودیوں کو دیا گیا۔ حالانکہ صہیونی اس وقت فلسطین کے کل 6 فی صد رقبے پر آباد تھے۔ سنہ 1948ء کی جنگ میں فلسطینیوں کو ان کے ارض وطن سے مزید محروم کردیا گیا اور فلسطینیوں سے ان کے ملک کا 78 فی صد رقبہ چھین کر صہیونیوں کو دے دیا گیا۔ شمالی فلسطین کے 419 دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے اور کم سے کم 9 لاکھ فلسطینیوں کو زبردستی ان کے شہروں سے نکال سے دیاگیا۔
مغربی بیت المقدس سے بڑی تعداد میں فلسطینی نقل مکانی کرگئے جس کے بعد صہیونی ریاست کو ان کی املاک پرقبضے اور غاصبانہ تسلط جمانے کا مزید موقع ہاتھ آگیا۔ چنانچہ املاک متروکہ کے نام سے نام سے ایک نام نہاد قانون منظور کیا گیا۔ 1950ء میں منظور کردہ اس قانون کے بعد فلسطینی مہاجرین کی زمینوں کو املاک متروکہ قرار دے کر ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا۔
سنہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت Â المقدس اور مغربی کنارے پربھی قبضہ کرلیا گیا۔ مشرقی بیت المقدس کو تیزی کے ساتھ اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کی مذموم مہم شروع کی گئی۔ سنہ 1980ء میں مشرقی بیت المقدس اور مغربی بیت المقدس کو یکجا کرنے کا ایک نیا قانون منظور کرکے دنوں حصوں کو صہیونی ریاست کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس قانون کے تحت متحدہ بیت المقدس کو اسرائیل کا ابدی دارالحکومت قرار دیا گیا۔ اس طرح اس شہر کی حدود میں 6.5 مربع کلو میٹر کا اضافہ ہوگیا۔
سنہ 1993ء میں بیت المقدس شہر کو مزید وسعت دی اب اور اس کا رقبہ 130 مربع کلو میٹر تک پھیل چکا ہے۔
سنہ 2005ء میں بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ نے ترقیاتی منصوبوں کی ایک اسکیم کی منظوری دی جسے ’القدس 2000 تا 2020‘ کا نام دیا گیا۔ اس منصوبے کا مقصد شہر کی مغربی حدود میں مزید 40 فی صد وسعت پیدا کرنا ہے۔
آبادیاتی عدم توازن
اسرائیلی حکومت نے مشرقی بیت المقدس میں رہائش پذیر ڈیڑھ لاکھ فلسطینی آبادی کو یہودی کالونیوں کے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں 1 لاکھ 47 ہزار 267ء فلسطینی چھوٹی چھوٹی بستیوں اور کالونیوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کے اطراف میں یا تو صہیونی کالونیاں ہیں یا دیوار فاصل ہے۔ صہیونی ریاست کے منصوبے کے تحت بیت المقدس کی مزید ایک لاکھ 30 ہزار فلسطینی آبادی کو دیوار فاصل میں بند کردیا جائے گا۔ ان فلسطینیوں کو زرد کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔ منصوبوں کے مطابق مشرقی بیت المقدس میں صہیونی آباد کاروں کی تعداد 3 لاکھ تک کرنے کی تیاریاں ہیں۔