چند روز قبل تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری جنرل صائب عریقات نے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ ستمبر 1993ء میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ’اوسلو معاہدہ‘ ایک بڑی غلطی تھی۔ فلسطینیوں سے اس معاہدے کے طے پانے کے وقت یہ غلطی سرزد ہوئی کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرانے میں ناکام رہی۔ دوسری طرف امریکا اور صیہونی اسرائیل کو فلسطینیوں سے تسلیم کرانے کے اپنے مذموم مشن میں کامیاب رہے۔
صائب عریقات نے مزید کہا کہ اوسلو سمجھوتے میں اسرائیل کو فلسطینی اراضی سے قبضہ ختم کرانے کا اعلان کرایا گیا مگر اس معاہدے کے باوجود اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اپنا غیرقانونی تسلط برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کیا فلسطینیوں کا یہ گناہ تھا کہ انہوں نے ’اوسلو‘سمجھوتا کرکے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ فلسطینیوں سے یہ غلطی سرزد ہوئی کہ اوسلو سمجھوتے کے وقت وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور اس کی حدود کا اعلان کرانے میں ناکام رہے۔
’اس وقت ہم سے کہا گیا کہ ہم اسرائیل کو ارض فلسطین میں ایک قانونی ریاست تسلیم کریں مگر دوسری طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کے وجود کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کیا‘ اس کے بعد تنظیم آزادی فلسطین کی مرکزی کونسل نے اپنے اجلاسوں میں باربار اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ’اوسلو سمجھوتے‘ میں طے شدہ نکات پرعمل درآمد کرتے ہوئے فلسطینی مملکت کو بھی تسلیم کرے‘۔
خطرناک مرحلہ
فلسطینی تجزیہ نگار ذوالفقار سویر جو نے کہا کہ ’ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ قضیہ فلسطین کو ضائع کرنے کے مرحلے سے آگے بڑھ کر اس کا تصفیہ کیا جا رہا ہے۔ اوسلو معاہدے نے اسرائیلی ریاست کے اہداف کو واضح کیا ہے مگر فلسطینی قوم کے مستقبل کو مزید خطرات سے دوچار کردیا گیا‘۔
سویر جو کا کہنا تھا کہ ’اوسلو سمجھوتا‘ اپنے اندر کئی خطرات سموئے ہوئے ہے۔ اس میں فلسطین میں صیہونی آباد کاری روکنے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوئی شرط شامل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے نزدیک ’اوسلو سمجھوتا‘ فلسطینی اراضی پر قبضے کو توسیع دینے کی ایک کامیاب کوشش تھی جس میں امریکیوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ اس وقت قضیہ فلسطین تاریخ کے انتہائی خطرناک دور سے گذر رہا ہے۔ ’اوسلو سمجھوتا‘ کے 25 سال گذر جانے کے بعد آج غرب اردنÂ اور بیت المقدس بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور دو ریاستی حل بھی ناکام ہو گیا ہے۔
ذوالفقار سویر جو نے کہا کہ ’اوسلو سمجھوتے‘ میں یہ بہت بڑی خامی تھی کہ اس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرایا گیا۔ فلسطینی قوم کو حق خود ارادیت سے محروم رکھا گیا۔ القدس اور فلسطینی پناہ گزینوں کے مسائل بھی جوں کے توں رہے۔ آج اسرائیل اپنی مرضی سے ان مسائل کو ڈیل کررہا ہے۔
خیال رہے کہ ذوالفقار سویر جو عوامی محاذ برائے آزاد فلسطین کے رہ نما ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنی ویب سائیٹ پر ایک سروے کرایا جس میں انہوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے مسلح مزاحمت یا سیاسی مذاکرات کار کے درمیان فلسطینیوں سےرائے لی۔ سروے میں 70 فی صد فلسطینیوں نے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے مسلح جدو جہد کی حمایت جب کہÂ فی صد فلسطینیوں نے حق خود ارادیت کےحصول کے لیے مسلح جدو جہد کی حمایت جب کہ 30 فی صد نے مذاکرات پر زور دیا۔
سیاسی عریانیت
فلسطینی تجزیہ نگار ایاد القرا کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے اوسلو سمجھوتےÂ کے دوران قومی ایشوز اور فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق کے منوانے کے معاملے میں ’سیاسی عریانیت‘ کا مظاہرہ کیا۔ فلسطینی لیڈر شپ نے قومی نوعیت کے اہداف کو صیہونی ریاست کے ہاں گروی رکھ دیا جس کے نتیجے میں دشمن نے قضیہ فلسطین کا تصفیہ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ’پی ایل او‘ نے داخلی نوعیت کے مسائل کے حل اور اسرائیل کے ساتھ جاری محاذ آرائی سے نکلنے کے لیے’اوسلو معاہدے‘ کو ایک ’حل‘ کے طورپر ذہن میں رکھا۔ دوسری طرف بعض عرب ممالک بھی قضیہ فلسطین کے سودے بازی کے حق میں تھے۔ یوں پی ایل او بھی ان کے ساتھ مل گئیÂ اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست بات چیت کے جھانسے میں آتی چلی گئی۔
فلسطینی تجزیہ نگار ایاد القرا کا کہنا ہے کہ فلسطینی قوم آج تک ’اوسلو سمجھوتے‘ کی تاریخی غلطی کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اس سمجھوتے کا انتہائی خطرناک پہلو عرب ممالک کے لیے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی شکل میں سامنے آیا۔
خیال پروگرام کا اختتام
سیاسی دانشور ابراہیم حبیب نے ’اوسلو سمجھوتے‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آج جس طرح کے حالات چل رہے ہیں وہ ’خیالی اور فرضی پروگرام کا نقطہ اختتام ہے‘۔ یہ خیالی پروگرام 25 سال تک فلسطینیوں کے دماغوں پر مسلط رہا۔ اس کا مقصد فلسطینی تحریک مزاحمت کو ختم کرنا اور فلسطینی قوم کو نام نہاد اور خیالی وعدوں کی زنجیروں میں جکڑنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پچیس سال تک ہم جس سمجھوتے کے گن گاتے رہے، آج ہم اس کی حقیقت کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔