غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) حال ہی میں فلسطینی قیادت پرمشتمل مرکزی کونسل کا اجلاس ہوا۔اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی اور صدرمحمودعباس نے اس جرات کا اظہار نہیں کیا حالات جس کے متقاضی تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات کی ثالثی کے لیے امریکا کے لیے دروازہ کھلا رکھا ہے۔
تاہم فلسطین کے موجودہ زمینی حالات امریکی ’امن منصوبے‘ کو آگے بڑھانےÂ کے لیے سازگاردکھائی نہیں دیتے۔ البتہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے امریکی پلان کو روکنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم امریکی ’امن منصوبے‘ کے حوالے سے پُرجوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس مبینہ منصوبے میں اسرائیل کو سنہ 1967ء کی سرحدوں پر واپسی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔فلسطینی اتھارٹی کا صلاح مشورہ
فلسطینی تجزیہ نگار اور دانشور عدنان ابو عامر نے کہا کہ تنظیم آزادی فلسطین فلسطین کے سیکرٹری صائب عریقات نے امریکی منصوبے کےحوالے سے جس دستاویز کا انکشاف کیا ہے اسے فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے مکمل طورپر مسترد کیے جانے کا تاثر نہیں دیا گیا۔
صائب عریقات نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے مجوزہ امریکی منصوبے کے بعض نکات کا انکشاف کیاتھا۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے حل حوالے سے تیار کردہ خفیہ امن پلان کی تفصیلات جاری کی ہیں۔
عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹی وی چینل ’14‘ نے ایک فلسطینی دستاویز حاصل کی ہے جس میں ٹرمپ کے’صدی کی ڈیل‘ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
رپورٹ میں بیان کردہ تفصیلات میں تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری صائب عریقات کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے ’امن منصوبے‘ میں غرب اردن کا 10 فی صد علاقہ اسرائیل میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے امریکا پر دباؤ ڈالا ہے کہ غرب اردن کا 10 کے بجائے 15 فی صد اسرائیل کو دیا جائے۔
ٹرمپ کے مجوزہ امن پلان میں اسدود، حیفا بندرگاہوں اور بن گوریون ہوائی اڈے کا کچھ حصہ فلسطینیوں کے لیے مختص کیا جائے گا مگربندرگاہوں اور ہوائی اڈے کا سیکیورٹی بدستور اسرائیل ہی کے پاس رہے گا۔
ٹرمپ کے مجوزہ امن پلان میں غرب اردن سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی گئی بلکہ اسے فلسطینیوں کی کارکردگی سے مشروط کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ میں ’فلسطین ۔ اسرائیل‘ تنازع کے حل کے لیے ’صدی کی ڈیل‘ کے جس فارمولے کا اعلان کیا ہے، القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا اس کا حصہ ہے۔ ذرائع کے مطابق بعض عرب ممالک کی طرف سے ٹرمپ کے اس نام نہاد امن فارمولے پرحمایت حاصل ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بہ ظاہر امریکی مجوزہ امن منصوبے کو مسترد کرنے کا کہا گیا ہے مگر عملا فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ امریکا اور فلسطینی اتھاڑی کے درمیان براہ راست رابطے بھی مکمل طورپر ختم نہیں ہوئے ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابو عامر کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے امریکی پلان کے حوالے سے تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی اتھارٹی مسلسل مصر اور سعودی عرب کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔ اس طرح ایسے لگتا ہے کہ امریکی منصوبے کو بعض عرب ممالک کی حمایت بھی مل سکتی ہے۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 7 پر نشرایک خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک ہفتہ قبل فلسطینی انٹیلی جنس چیف ماجد فرج نے سعودی عرب کا خفیہ دورہ کیا تھا۔ ان کے اس دورے کا مقصد امریکی امن پلان کے سامنے آنے والے نکات پر تبادلہ خیال کرنا تھا کہ آیا امریکی منصوبے کو قبول کیا جائے یا نہیں۔
اسرائیل کا من پسند
ضمنی طورپر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کی جانب سے امریکی امن پلان کوتسلیم کیے جانے کا اشارہ دیا ہے۔ اب تک کہ تمام فلسطینی اشارے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی نے صرف القدس کے حوالے سے امریکی منصوبے کو مسترد کیا ہے۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار ابراہیم حبیب کا کہنا ہے کہ امریکی امن منصوبہ اصل میں اسرائیل کا تیار کردہ ہے۔ اس کے تمام قواعد اور شرائط اسرائیل کی من پسند ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار ایمن الرفاتی کا کہنا ہے کہ امریکی پلان فلسطینی اتھارٹی کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے پاس امریکی پلان کو مسترد کرنے اور اس کا متبادل پیش کرنے کا کوئی آپشن نہیں۔
الرفاتی نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اس قیمت کے بارے میں سوچ رہی ہے جو امریکی پلان قبول کرنے کی صورت میں اسے ملنے والی ہے۔ جب کہ ٹرمپ کا منصوبہ غرب اردن سے اسرائیل کو نکالنے کا نہیں بلکہ اسرائیل کی عمل داری قائم کرنے میں صیہونیوں کی مدد کرنا ہے۔