تل ابیب سے سفارت خانے کی القدس منتقلی توامریکی حکومت کی نگرانی میں ہوگی مگرمیڈیا میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا ایک یہودی ارب پتی ’شیلڈون اڈلسن امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی پر اٹھنے والے اٰخراجات برداشت کریں گے۔
ایک رپورٹ میں یہودی ارب پتی اڈلسن کی زندگی اوراس کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سفارت خانے کی القدس منتقلی کے لیے فنڈنگ کرنے والے یہودی ارب پتی کو "عقاب” کہا جاتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ شیلڈون ایڈلسن القدس میں امریکی منصوبے کے لیے فنڈنگ کررہا ہے۔ اس کا شمار ان ارب پتی یہودیوں میں ہوتا ہے جو فلسطین میں صیہونی آباد کاری اور توسیع پسندی میں دامے درمے سخنے تعاون کرتا رہا ہے۔
دولت کا بے تاج بادشاہ
84 سالہ شیلڈن اڈلسن امریکی شہر بوسٹن میںپید ہوئے۔ ان کے والدین لیتونیا اور ویلز کے تارکین وطن تھے۔ ڈلسن کو اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے ساتھ ساتھ یہودی لابی کا سب سے بڑا مالی معاونت کار قرار دیاÂ جاتا ہے۔
ڈلسن کیے والدÂ برطانیہ سےنقل مکانی کرکے امریکا آئے جوکہ برطانوی نہیں بلکہ دراصل یوکرائنی اور لیتوانی یہودی والدین کی اولاد تھے۔ ان کے اجداد میں ایک صاحب ویلز میں ایک کوئلے کی کان میں ملازم تھے۔
اڈلسن کی ابتدئی زندگی غربت میں گذری۔ 12 سال کی عمر میں اس نےچچا سے200 ڈالر قرض لیا۔ اس رقم سے اس نے بوسٹن میں اخبار فروشی کے لیے سرکاری اجازت نامہ حاصل کیا۔
سنہ 1948ء میں 16 سال کی عمر میں اس نے مزید ایک ہزار ڈالر کی رقم قرض لی جس کی مدد سے اسی شہر میں سویٹس شاپ قائم کی۔
اس دوران اس نے ایک تعلیمی ادارے سے کامرس کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور پھر فوج میں بھرتی ہوگیا تاہم فوج میں اس کا دل نہ لگاÂ اور وہ فوج کو چھوڑ کر دوبارہ تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا۔
اس دوران اڈلسن نے ایک کمپنی قائم جس میں صفائی کے آلاتÂ فروخت کرنا شروع کردیے۔ اس کے بعد اس نے تجارتی دوروں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اس کی دولت میں دن دگنی رات چگنی ترقی کرتی گئی اور جلد ہی اس کا شمار کروڑ پتی یہودیوں میں ہونے لگا حالانکہ اس کی عمر ابھی صرف تیس سال تھی۔ چند ہی سال میں اس کی دولت میں دو گنا اضافہ ہوگیا۔
سنہ2007ء میں اڈلسن نے اپنی اہلیہ میریامÂ کی مدد سے ایک فلاحی ادارہ قائم کیا۔ اڈلسن فائونڈیشن کو اسرائیل کی سب سے بڑی سپورٹر تنظیم قرار دیاجاتا ہے۔
سن2007 میںاڈلسن فاؤنڈیشن نے”بیرتھ رائٹ” نامی ایک یہودی گروپ کو ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کی سنہ 2014ء میں اس تنظیم نے اسرئیلی ڈیفنس فورسز کو 5 ملین ڈالر کی رقم عطیہ کی۔
’عقاب‘ کہلوانے والے اڈلسن کا امریکی سیاست میں گہرا رسوخ ہے اسے ری پبلیکن کے سب سے بڑے مالی معاونت کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران اڈلسن سے نہ صرف بھرپور رقوم فراہم کیں بلکہ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ اڈلسن نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی ہرموقع پر حمایت اور مدد کی۔ انہوں نے یسرائیل ھیوم اخبار میں اپنی طرف سے نیتن یاھو کی حمایت میں اشتہارت چھپوائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اڈلسن کے کئی کسینو ہیں۔ ان میںایک کسینو لاس ویگا ریاست میں ہے۔ اس کے علاوہ وہ لاس ویگاس سینڈر نامی کلب کے چیئرمین ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اڈلسن کی دولت 40 ملین ڈالر سےزیادہ ہے۔ رواں سال فروری میں بزنس جریدے فوربز نےاڈلسن کو 29 واں دنیا کا امیر ترین شخص قرار دیا تھا۔سنہ 2017ء میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ری پبلیکن پارٹی کو بڑھ چڑھ مالی مدد کی۔
مشکوک تعلقات
اڈلسن کو اسرائیل کا سب سے بڑا معاون قرار دیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اڈلسن کے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے ساتھ بھی گہرے مگر خفیہ مراسم قائم ہیں۔
سنہ 2007ء کے بعد نیتن یاھو کو اقتدار میں لانے اور فائز رکھنے کے لئےÂ اخبار ’یسرائیل ھیوم‘ کے ذریعے بھرپور مہم چلائی گئی اور اس مہم میں اڈلسن اور اس کی تنظیم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ٹرمپ کے ساتھ قربت کی بناء پر اڈلسن نے تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حتیٰ کہ نیتن یاھو اور ٹرمپ کو یقین دلایا کہ وہ سفارت خانے کی القدس منتقلی کے لیے اپنی طرف سے بھرپور فنڈز فراہم کیے۔