غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی قوم کی امنگوں پر پانی پھیرنے میں قابض اور غاصب اسرائیلی ریاست اپنے تمام ترمکروہ حربے استعمال کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں دیکھی گئی جب اسرائیلی فوج نے ایک ننھے فلسطینی فٹ بالر سے مستقبل میں فٹ بال کی دنیا کا ہیرو بننے کاخواب چھین لیا۔
Â
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 17 یوسف القطراوی ’لیفر پول انگلینڈ فٹ بال کلب‘ کے فٹ بالر محمد صلاح سے بہت متاثر ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ مستقبل میں صلاح کی طرح فٹ بال کی دنیا میں اپنا نام روشن کرے گا مگر اس کا خواب اسرائیلی فوج کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
القطراوی حال ہی میں غزہ کی پٹی میں ہونے والے احتجاجی مظاہرین میں شریک تھا کہ اسرائیلی فوجیوں نے اسے گولی مار دی۔ گولی لگنے سے اس کی ایک ٹانگ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر ٹانگ کا زخم آپریشن سے ٹھیک نہ ہوا تو اس کی ٹانگ کاٹنی پڑ سکتی ہے۔
یوں اسرائیلی فوج کی دو گولیاں کم عمر فلسطینی فٹ بالر کا خواب اس سے چھیننے کا موجب بنی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی کے اسپتالوں میں یوسف القطراوی کا علاج نہیں ہوسکتا۔ فلسطینی وزارت صحت نے اس کے علاج کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر اسے غزہ سے باہر اسرائیلی اسپتالوں میں لے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اسے غرب اردن میں علاج کے لیے لے جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس کے اہل خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے متعدد بار اسرائیلی ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ یوسف القطراوی کو علاج کے لیے بیت حانون گذرگاہ سے سفر کرنے کی اجازت دے مگر اسے اجازت نہیں دی گئی۔
خواب جو چکنا چور ہوگیا
یوسف القطراوی نے کہا کہ مجھے اپنے زخمی ہونے کا اتنا دکھ نہیں جتنا اس بات کا ہے کہ میرا خواب مجھ سے چھین لیا گیا۔ میں جب اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے بارے میں سنتا ہوں کہ وہ باقاعدگی سے فٹ بال کھیلنے کی مشق کررہے ہیں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ فٹ بال میری زندگی تھی۔ زخمی ہونے اور ٹانگ سے معذور ہونے کے بعد مجھ سے میری زندگی اور میرا خواب چھین لیا گیا۔ میں لیور پول ایف سی کے فٹ بالر محمد صلاح سے متاثر ہوں اور مستقبل میں فٹ بال کی دنیا کا ہیرو بننا چاہتا تھا۔ میر خواہش تھی کہ ایک دن میں بھی محمد صلاح کے مقام تک پہنچوں مگراسرائیلی فوج کے نشانہ بازوں نے مجھ سے میرا خواب چھین لیا۔
اس نے درد بھرے لہجے میں استفسار کیا کہ اسرائیلیوں کو مجھے گولیاں مار کر کیا حاصل ہوا ہے۔ اب تو مجھے نہیں لگتا کہ میں اپنے پاؤں پر سیدھا کھڑا بھی ہوسکوں گا یا نہیں۔
اپنے ساتھ پیش آئے اس المناک واقعے کے بارے میں القطراوی نے کہا کہ تحریک حق واپسی کے دوسرے جمعہ کو ہم بہت سے ساتھی ایک احتجاجی ریلی میں شریک تھے کہ اس دوران اسرائیلی فوج کے نشانہ بازوں نے ہم پر گولیاں برسا دیں۔ ایک گولی میری دائیں ٹانگ کی پنڈلی اور دوسری ران سے پار ہوگئی۔
مستقبل سے مایوس
یوسف القطراوی جو اس وقت غزہ کی پٹی کے ایک اسپتال میں زخمی ٹانگ کی سرجری کا منتظر کا کہنا ہے کہ اس کی ایک ٹانگ میں بندوق کی گولیاں لگیں جب کہ دوسری ٹانگ آنسوگیس کا شیل لگنے سے زخمی ہوئی۔ ڈاکٹروں نے اسے غزہ سے باہر لے جانے کا مشورہ دیا مگر اسے اس وقت بہت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب اسرائیلی حکام نے اسے غزہ سے باہر کسی دوسرے فلسطینی علاقے کے اسپتال لے جانے کی اجازت دینے سےانکار کردیا۔
اس کا کہنا تھا کہ میں اورمیرے خاندان نے بار بار اسرائیلی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے علاج کے لیے غزہ سے باہر لے جانے کی اجازت دے مگر ان کی فریاد نہیں سنی گئی۔
مستقبل میں فٹ بال کا ہیرو بننے کا خواب دیکھنے والے فلسطینی بچے کی والدہ کا کہنا ہے کہ چھ اپریل کے بعد وہ یوسف کے حوالے سے بہت مایوس ہیں۔ وہ مستقبل میں فٹ بال کا ہیرو بننا چاہتا تھا کہ مگر حالت یہ ہے کہ اسے علاج تک کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ماں نے استفسار کیا کہ میرے بچے نے ایسا کون سا جرم کیا تھا کہ اسرائیلی فوج نے اسے نشانہ بنا کر گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہوگیا ہے۔