بیت لحم – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) مظلوم فلسطینی قوم کے خلاف قابض صہیونی ریاست کے مظالم کی خبریں تو روز سامنے آتی ہیں مگر ستم رسیدہ فلسطینیوں کی الم ناک داستان کو ایک برطانوی آرٹیسٹ نے اپنے دست ہنر اور کمال مہارت سے تصویری خاکوں میں پیش کیا ہے وہ اس کی آج تک فلسطینی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطینیوں کا روز مرہ قتل عام، نسلی دیوار کے ذریعے فلسطینی آبادی پر عرصہ حیات تنگ کرنا، فلسطینیوں کی اراضی اور املاک غصب کرنا، ان کی املاک پر دنیا بھرسے یہودں کو لا کرآباد کرنا، نہتے فلسطینیوں کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالنا اور اس جیسے ان گنت سفاکانہ حربے روز کا معمول ہیں۔ایک Â گم نام برطانوی ہنر مند (آرٹسٹ) نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کے مظالم کو اپنی فن کاری کے ذریعے تصویری خاکوں کے قالب میں ڈھال کر دنیا کے سامنے صہیونی بھیڑیوں کا مکروہ چہرہ منفرد اور اچھوتے انداز میں پیش کرکے فلسطینی قوم کے دل جیت لیے ہیں۔
غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل کے شمالی قصبے داخلی راستے کے ذریعے شہر میں داخل ہونے والے شہریوں کو قریب ہی دیوار فاصل سے واسطہ پڑتا ہے۔ شمالی بیت لحم سے اندر داخل ہوتے ہی دیوار فاصل سے صرف تین میٹر دور دنیا کا ایک انوکھا ہوٹل قائم ہے۔ یہ ہوٹل اپنے کھابوں اور انواع اقسام کے ماکولات و مشروبات کی وجہ سے مشہور نہیں بلکہ اپنے درو دیوار کی وجہ سے دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ ہوٹل کس نے کیوں اور کس مقصد کے لیے بنایا۔ بھلا ایک ریستوران کی پہچان اس کے ہردلعزیز کھانوں کے بجائے دیواروں پر بنے خاکوں سے کیوں کر کی جاسکتی ہے؟۔
جی ہاں! ایک گم نام برطانوی آرٹسٹ نے 14 ماہ کی طویل محنت کے ذریعے اپنے دست ہنر سے ایک ایسا جادو جگایا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
برطانوی فن کار رابرٹ بانکسی نے کئی ماہ قبل انتہائی راز داری کے ساتھ اس ہوٹل کے اندرونی دور دیوار پر خاکوں اور تصاویر کی پینٹنگ شروع کی۔ ایک سال سے زائد عرصے کی ان تھک محنت اور کاوش کے بعد وہ اپنے مشن میں کامیاب وکامران ہوگیا۔ Â بانکسی کے دست ہنرسے تیار کردہ یہ ہوٹل دنیا کا ایک منفرد ہوٹل ہے جہاں لوگ کھانا کھانے کم مگر صہیونی ریاست کے مظالم کا جائزہ لینے زیادہ آتے ہیں۔
آئیے ہوٹل کے اندرونی ماحول کا جائزہ لیں
دنیا کے اس منفرد ہوٹل کے لیے اس کے بنانے والے برطانوی فن کار نے ’The Walled Off Hotel‘ رکھا ہے۔ یعنی کہ ’دیواروں کے حصار میں گھرا ہوٹل‘۔ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہوتا ہے یہ ہوٹل اسرائیل کی قائم کردہ دیوار فاصل کے بیچ گھرا ہوا ہے۔ ہوٹل میں داخل ہونے والے زائرین کا استقبال ایک بندر کا مسجمہ کرتا ہے جس کی بغل میں ایک بڑا بیگ ہے۔ وہ زائرین کو خوش آمدید کہتا ہے۔ وہاں سے آگے قدم اٹھاتے ہی ہوٹل کے درو دیوار آپ سے باتیں کرتے Â اوران پر بنے خاکے اور تصاویر فلسطینیوں پرڈھائے جانے والے مظالم کی خاموش داستان سناتے ہیں۔ درو دیوار پر بنی ہر تصویر، خاکہ اور پینٹنگ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی افواج کے مکروہ حربوں کی خاص پیرائے میں ترجمانی کرتی ہے، کہیں آنسوگیس کی شیلنگ کا عکس ہے اور تو کہیں مانیٹرنگ کی آڑ میں لگائے گئے کیمروں کی عکاسی ہے۔
کہیں اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر گولیاں برسا رہی ہیں تو کہیں نہتے شہریوں کی گرفتاریوں کے ہولناک مناظر ہیں۔ کہیں اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینیوں پر مظالم ہیں تو کہیں فلسطینی بستیوں کے بیچ تیزی کے ساتھ پھیلتی یہودی آباد کاری اور دیوار فاصل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ الغرض ہوٹل کے بیرونی حصے سے لے کر اندرونی گیلریوں، کمروں کی دیواروں پر فلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا کوئی نا کوئی تصویری خاکہ دکھائی دیتا ہے۔
مجموعی طور پر ہوٹل کے نو کمرے ہیں جن میں چھ فیملیاں سما سکتی ہیں۔ یہ ہوٹل سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ Â ہوٹل کا راستہ بیت جالا سے ہو کر بیت لحم تک پہنچتا ہے۔
بانکسی کے خاکے
روبرٹ بانکسی نے پہلی بار سنہ 2007ء میں بیت لحم کا دورہ کیا اور فلسطینیوں کی کسم پرسی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ بیت لحم تاریخی اور مذہبی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود صہیونی ریاست کی انتقامی کارروائیوں کا شکار ہے جس کے نتیجے میں شہر کی سیاحت دم توڑ چکی ہے۔ جب سے انہوں نے بیت لحم میں مذکورہ ہوٹل قائم کیا ہے بیت لحم میں مقامی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ بیرون ملک سے بھی لوگ وہاں آنے لگے مگریہ سلسلہ زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں۔
روبرٹ بانکسی کوئی مشہورآرٹسٹ نہیں تاہم اس نے ایک اپنے فن کا ایک ایسا مظاہرہ کیا ہے کہ جسے فلسطینی تاریخ میں صہیونی ریاست کے مظالم کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بانکسی سنہ 1974ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لندن اوربریسٹول شہروں میں اپنی ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔ مگر فلسطین میں اس کے منفرد ہوٹل کی وجہ سے اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔