امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد اب امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کی سازشیں جاری ہیں۔ انہی سازشوں کے جلو میں صیہونی ریاست غرب اردن کو فلسطین ریاست سے الگ کرنے اور اسے صیہونی ریاست میں ضم کرنے کی سازشیں بھی تیزی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔
غرب اردن کا آبادیاتی نقشہ تبدیل کرنے کے لیے قدم قدم پر صیہونی بستیوں کی تعمیر جاری ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں صیہونیوں کے لیے گھروں کی تعمیر جاری ہے۔
صیہونی کنیسٹ نے بھی پہلی بار القدس کو یہودیانے، اس کے دونوں حصوں کو یکجا کرنے، غرب اردن اور بیت المقدس کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے قانون سازی کی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ حال ہی میں القدس کو مذاکرات سے مستثنیٰ کرنے کے لیے ایک نیا قانون منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت جب تک پارلیمنٹ کے 120 میں سے 80 ارکان حمایت نہ کریں اس وقت تک القدس پر فلسطینیوں سمیت کسی بھی فریق کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
حال ہی میں اسرائیل کی انتہا پسند حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ نے ایک نیا اعلان جاری کیا جس میں کہا گیا غرب اردن میں قائم کی گئی صیہونی کالونیوں پر اسرائیل کا سرکاری قانون لاگو کیا جائے گا۔ اس اعلان کا مقصد مقبوضہ مغربی کنارے کواسرائیل میں شامل کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ مگر اسرائیلی کنیسٹ کے یہ نام نہاد قانونی حربے اور لیکوڈ کی سازشیں عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ لیکوڈ کا غرب اردن پر آئینی عمل داری کا اعلان غرب اردن کے سیکٹر C‘ جو کہ غرب اردن کا 62 فی صد ہے کو صیہونی ریاست میں شامل کرنا ہے۔
فلسطینی ریاست کا سقوط
فلسطینی تجزیہ نگار اور القدس اسٹڈی سینٹر و نقشہ جات کےڈائریکٹر خلیل التفکجی نے کہا کہ لیکوڈکی جانب سےغرب اردن کو اسرائیل کی قانونی عمل داری میں دینا دراصل مستقل میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے غرب اردن میں چپے چپے پر کالونیاں تعمیر کرکے عملا فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنے کی سازش کر رہی ہے۔
التفکجی نے کہا کہ صہیونی ریاست کے ویژن کے مطابق فلسطینی ریاست کا کوئی وجود نہیں۔ پورے فلسطین پر صیہونی ریاست کا قبضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی ریاست غرب اردن میں صیہونی آبادی میں تیز لا کر مستقبل قریب میں غرب اردن میں صیہونی کونسلوں اور سول ایڈ منسٹریشن کا نظام ختم کرکے براہ راست صیہونی ریاست کی عمل داری میں لانا ہے۔
صیہونی مورخ ’مرڈ خائی کیدار‘ کا کہنا ہے کہ غرب اردن قبائل اور خاندانوں کی ریاست بن جائے گی۔Â اسرائیل غرب اردن کو ایک قبائلی ریاست کے طور پر ڈیل کرے گا۔ ہر کالونی ایک قبیلے کا درجہ رکھے گی۔ یہ تجربہ سنہ 1970ء میں بھی کیا گیا تھا مگراس وقت صیہونی اس میں ناکام رہی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست ایک ایسی فلسطینی کالونیوں پر مشتمل ہوگی جس کے اطراف میں اسرائیل ہوگا۔ فلسطینی ریاست کے تمام داخلی اور خارجی راستے صیہونی فوج کی قبضے میں ہوں گے۔ اس کے مشرق میں وادی اردن، ہو جو پہلے ہی صیہونی ریاست کے نرغے میں ہے۔ مغرب میں صیہونی کالونیاں اور دیوار فاصل فلسطینی آبادیوں کو گھیرے میں لیے رکھیں گی۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ صیہونی کالونیوں بائی پاس سڑکوں سے ایک دوسرے سے مربوط ہوں گی۔ غرب اردن کے شرقاً، غرباً کالونیاں فلسطینی کالونیوں کو کسی بھی وقت جغرافیائی طور پرÂ توڑ سکتی ہیں۔
آزاد فلسطینی ریاست کا تصور خطرے میں
صیہونی ریاست کی حکومتیں تواتر کے ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے منصوبوں پر عمل پیرا رہی ہیں۔ آج سے ربع صدی قبل جب فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کے بعد صیہونی ریاست نے نام نہاد امن عمل سے وقت لیتے ہوئے صیہونی آباد کاری اور توسیع پسندی کا سلسلہ جاری رکھا۔ آج سے بیس سال قبل غرب اردن میں صیہونیوں کی تعداد ایک لاکھ پانچ ہزار تھی جو کہ اب سات لاکھ 50 ہزار تک جا پہنچ چکی ہے۔
یہ سب کچھ نام نہاد امن عمل کی آڑ میں کھیلے جانے والی سازش ہے۔ فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹرÂ بلال الشوبکی نے کہا کہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکا کی کھلی حمایت میں دو ریاست نہیں بلکہ ایک ریاست کی عمل داری قائم کرنا ہے۔
’آلون‘ پروگرام کا نفاذ
فلسطینی تجزیہ نگار سامر عنبتاوی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل غرب اردن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسرائیل کا ’الون‘ پروگرام نافذ کرنا ہے۔
عنبتاوی نے کہا کہ صیہونی ریاست قضیہ فلسطین کے تصفیے کی سازشوں میں سرگرم ہے۔ عالمی اور علاقائی حالات، اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کے قیام کی کوششیں اور فلسطینیوں کی صفوں میں اختلافات اور ان کی کارکردگی میں کمی اسرائیل کو اپنے جرائم کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں اس وقت صرف اسرائیل اور امریکا کی مرضی کے فیصلے مسلط کیے جا رہے ہیں۔ امریکا اور صیہونی ریاست دونوں مل کر فلسطینی قوم اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کررہے ہیں۔
عنبتاوی نے کہا کہ اس وقت فلسطین پر مسلط کردہ اسرائیلی منصوبہ چند سال قبل بھی پیش کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت غزہ کی پٹی کو جزیرہ سیناء میں توسیع دیتے ہوئے اسے فلسطینی ریاست کی شکل دینا تھا۔
جہاں تک غرب اردن کا تعلق ہے تو اسرائیل اسے مکمل طور پر اپنی عمل داری میں لانے کے لیے سرگرم ہے۔ غرب اردن کے 60 علاقے کو صیہونی کالونیوں کی وجہ سے اسرائیل میں ضم کیا جا رہا ہے۔ غرب اردن کے اطراف میں صیہونی کالونیوں کا جال بچھانے اور مرکزی شاہراؤں اور بائی باس سڑکوں کے قیام کے ذریعے غرب اردن کو عملی طور پر اسرائیل میں ضم کیا جا چکا ہے۔
جہاں تک غرب اردن کے بقیہ چالیس فی صد علاقے جس میں سیکٹر AÂ اور سیکٹر B شامل میں اسے کینٹونمنٹ کی شکل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ علاقے پہلے ہی کافی حد تک صیہونی ریاست کی عمل داری میں ہیں۔