غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) انیس جنوری 2010ء کو متحدہ عرب امارات میں بزدل صیہونی دشمن کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے ’موساد‘ کے دہشت گردوں نے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے کمانڈر محمود المبحوح کو ایک ہوٹل میں بزدلانہ حملے میں شہید کرکے ایک بار پھریہ ثابت کیا کہ بزدل دشمن آمنے سامنے آ کر مقابلہ کرنے کے بجائے چھپ کر وار کرتا ہے۔
محمود المبحوح کی شہادت کو آٹھ سال ہوچکے ہیں۔ المبحوحÂ جس طرح زندہ صیہونیوں کے لیے خوف کی علامت اور ڈراؤنا خواب تھے، اپنی شہادت کے بعد بھی صیہونیوں کے لیے خوف کی علامت ہیں۔ صیہونیوں کو اندازہ ہے کہ ان کی اس بزدلانہ مکاری کا بدلہ کسی بھی وقت لیاجاسکتا ہے۔محمود المبحوح مردن میدان اور بہادر مزاحمتی رہنما ہونے کے ساتھ آہنی عزم کے مالک تھے۔ انہوں نے کئی صیہونیوں کو جنگی قید بنانے کی کامیاب منصوبہ بندی کی۔ ان کی غزہ کی پٹی میں داخلے کو اسرائیل بہت بڑے خوف کی علامت قرار دیتا۔ دشمن نے غزہ کی پٹی میں بھی انہیں نشانہ بنانے کی بزدلانہ کوششیں کی مگر وہ بہرصورت کامیاب نہیں ہوسکا۔
دُشمن پر رُعب
محمود المبحوح کی بزدلانہ انداز میں شہادت کے کئی سال کے بعد بھی صیہونیوں کو ان کے حوالے سے شدید خوف لاحق ہے۔ اسرائیلی خفیہ ادارے اور دعویٰ کرتی ہے کہ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے جانثاروںÂ کو دی گئی تربیت میں المبحوح کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔
اسرائیلی فوج جو فلسطینیوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم کی مرتکب ہےیہ جانتی ہے کہ اسے فلسطینیوں کے خلاف کیے گئے جرائم کی کسی نا کسی مقام پر سزا ضرور ملے گی۔ فلسطینی مزاحمتی قیادت کو بزدلانہ قاتلانہ حملوں میں شہید کرنے کی پالیسی کا محرک فلسطینیوں کی طرف سے لاحق خوف ہی ہے۔ اسرائیل انتفاضہ کے آتش فشاں کو بجھانے کے لیے فلسطینی مزاحمتی اور عسکری قیادت کو نشانہ بناتا ہے۔ محمود المبحوح اس کی زندہ مثال ہے۔
محمود المبحوح کو کئی بار فلسطین اور بیرون ملک گرفتار کیا جاتا رہا۔ انہیں سنہ 1986ء میں غزہ کی مرکزی جیل میں قید رکھا گیا۔ ان پر غیرقانونی اسلحہ رکھنے کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ صیہونی جیل سے نکلنے کے بعد انہوں نے مزاحمتی سرگرمیاں مزید بڑھا دیں۔ کچھ عرصہ وہ مصر کی جیل میں بھی قید رہے۔
گیارہ مئی 1989ء کو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی کی اسپیشل فورس نے محمود المبحوح کے گھر پر دھاوا بولا۔ گھر پر دستی بموں اور صوتی بموں سے حملے کرنے اور اس کے دروازے توڑنے کے بعد وہاں پر موجود کن سن بچوں سمیت تمامÂ اہل خانہ کو حراست میں لے لیا گیا۔
صیہونی فوج محمود المبحوح کے مسلسل تعاقب میں تھی مگر وہ دشمن کے ہاتھ نہیں آ رہے تھے۔ صیہونی فوج غزہ کی پٹی میں مبحوح کی تلاش کے لیے کسانوں کا بھیس بدل کر بھی پھرتے تاکہ انہیں گرفتار یا شہید کرسکیں۔ اسرائیلی فوج نے اس دوران ان کے دو بھائیوں پر فائرنگ کی۔ ایک بھائی فایق کو حراست میں لے لیا گیا جب کہ دوسرے کو شدید زخمی حالت میں مقامی اسپتال منتقل کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے مسلسل تعاقب کے باوجود مبحوح اپنے زخمی بھائی کی عیادت کے لیے اسپتال میں پہنچا۔اس کے بعد وہاں سے نکل گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ غزہ سے باہر جانے میں کامیاب ہوگئے۔
سنہ 1990ء میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے محمود المبحوح کا مکان مسمار کرنے اور گھر کا تمام سامان قبضے میں لینے کا حکم دیا۔ ان پر اسرائیلی فوجیوں کو اغواء کرنے کی منصوبہ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔
بیرون ملک سفر اور شہادت
مسلسل دو ماہ تک اسرائیلی فوج غزہ میں دن رات ابو العبد کو تلاش کرتی رہی مگر دشمن کے تمام سراغ رساں کتے انہیں تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ بالآخر محمود المبحوح اپنے متعدد ساتھیوں سے بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوگئے۔ جب وہ مصر پہنچے تواسرائیل کو ان کی وہاں موجودگی کا علم ہوگیا۔ اسرائیل نے مصری حکام سے کہا کہ وہ المبحوح کو گرفتار کرکے اس کے حوالے کرے مگر وہ مصری فوج سے بھی چھپ گئے۔ وہ تین ماہ تک روپوش رہے۔ بالآخر ان کی لیبیا بے دخلی کا معاہدہ ہوا۔ وہ لیبیا پہنچے جہاں سے وہ شام آگئے اور اپنا جہادی سفر شروع کردیا۔
محمود المبحوح مسلسل سفر میں رہتے۔ بدنام زمانہ صیہونی خفیہ ادارے ’موساد‘ کے جاسوسوں نے ان کا تعاقب شروع کردیا۔19 جنوری 2010ء کو وہ دبئی کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ صیہونی جاسوس ان کے تعاقب میں تھے۔ صیہونی دشمن نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مبحوح کو بجلی کے جھٹکے لگا کر شہید کردیا۔
شہادت محمود مبحوح کی تمنا تھی سو وہ پوری ہوئی مگر صیہونی دشمن نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے پرلے درجے کی بزلدی کا مظاہرہ کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔ مبحوح کی شہادت کو آٹھ سال ہوگئے ہیں مگرصیہونی آج بھی ان کے انتقام سے خوف کا شکار ہیں۔