اسرائیلی تجزیہ نگاربرائے اطلاعات و سلامتی ’یونین بن منا حیم‘ نے فلسطینیوں کی تحریک ’حق واپسی‘ کے سات اہداف کا ذکرکیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے عوام اور فلسطینی پناہ گزین اس تحریک سے سات اہم اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیلی تجزیہ نگار تسلیم کرتا ہے کہ فلسطینی عوام نے احتجاج اور انتفاضہ کی ماضی کی روایات سے ہٹ کر ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ اس تحریک کے دو بنیادی اہداف ہیں۔ پہلا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطین کی بندر بانٹ کی سازش جسے عرف عام میں ’صدی کی ڈیل‘ کہا جاتا ہے کو ناکام بنانا اور دوسرا عرب ممالک اور اسرائیلی ریاست کے درمیان قربتیں پیدا کرنے کی کوششوں کو روکنا ہے۔
تیس مارچ کو مشرقی غزہ میں اسرائیل کی سرحد پر لاکھوں فلسطینیوں نے جمع ہو کر احتجاج کیا۔ مشرق غزہ کے علاوہ رفح، خزاعہ، خان یونس، البریج، الشجاعیہ اور جبالیا کے مقامات پر بھی بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں میں کم سے کم دو لاکھ فلسطینیوں نے حصہ لیا۔
اسرائیلی تجزیہ نگار نے عبرانی ٹی وی 10 کو ایک طویل اور تفصیلی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے تیس مارچ کے بعد فلسطینیوں کے یوم الارض مظاہروں کی کامیابیوں کا تذکرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی شہری ہرآنے والے دن اپنی اس تحریک کا دائرہ اندرون اور بیروملک وسیع کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی تزویراتی حکمت عملی کامیاب ہے۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیلی ان کی تحریک کو دبانے کے لیے طاقت کے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔
مناحیم کا کہنا ہے کہ سنہ 2014ء کی جنگ کے بعد غزہ کی سرحد پر قدرے سکون رہا ہے مگر حالیہ ایک ہفتے کے دوران فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک نے سرحد کو ایک بار پھر جنگ کی حالت میں تبدیل کردیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کی نسبت موجودہ احتجاجی مظاہروں میں فلسطینی زیادہ پُرامن ہیں۔ پہلی انتفاضہ تحریک میں پتھروں کا استعمال کیا گیا۔ ایک تحریک میں چاقو اٹھاؤ اور مارو کا نعرہ لگایا گیا اور ایک تحریک میں آتشیں ہتھیار چلائے گئے۔ مگر اب کی بار فلسطینیوں نے سب سے پُرامن اور مؤثر ہتھیار یعنی عوامی طاقت کے ذریعے اپنے مطالبات کا راستہ اختیار کیا ہے۔
اسرائیلی دانشور کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ پر پابندیوں میں اضافہ اور بعض عرب ممالک کی طرف سے غزہ کے عوام کے ساتھ انتقامی پالیسی سے غزہ میں فلسطینیوں میں غم وغصہ میں مزید اضافہ کرے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی پرامن احتجاجی تحریک سے جو مقاصد حاصل کریں گے وہ دوسرے ذرائع سے شاید نہ کرسکیں۔
اس حوالے سے فلسطینیوں کی اس پُرامن جدو جہد کے سات مقاصد ہوسکتے ہیں۔
حق واپسی فلسطینیوں کا اہم ترین مطالبہ ہے جو کہ علاقائی اور عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس طرح یہ مطالبہ ایک بار پھر عالمی سطح پر اُبھرے گا اور عالمی برادری اس کی طرف متوجہ ہوگی۔
اس تحریک کا دورسرا مقصد اسرائیل کو عالمی سطح پر مشکل میں ڈالنا اور اسے شرمندہ کرنا ہے۔ اسرائیلی فوج نے 30مارچ کو فلسطینیوں کے پُرامن جلوسوں پر حملہ کرکے 22 مظاہرین کو شہید اور 1500 کو زخمی کردیا۔ یہ سب ایک ہی دن میں ہوگیا۔Â اسرائیلی فوج کی بربریت کو پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تیسرا اہم مقصد یہ حاصل ہوگا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ محاصرہ اور انسانی بحران ایک بار پھر سامنے آئے گا۔
چوتھا ہدف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صد کی ڈیل کے سامنے رکاوٹ کھڑی ہوگی۔
پانچواں یہ کہ غزہ کی مشرقی، جنوبی اور شمالی سرحد پر اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی قائم رہے گی اور اسرائیلی فوج مسلسل اُلجھی رہے گی۔
فلسطینی قوم میں آزادی کے لیے مزید جدو جہد کرنے اور بیدار کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
ساتواں مقصد فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کے عوام کے خلاف مزید انتقامی کارروائیوں سے روکا جاسکے گا۔