رام اللہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی زندانوں میں ہزاروں فلسطینی قیدیوں میں سے سیکڑوں عشروں سے پابند سلاسل ہیں۔ انہی فلسطینی اسیران کے قائد کہا جاتا ہے۔ فلسطینی اسیران کے قائدین میں ایک نام ’ولید الدقہ‘ کا بھی ہے جومسلسل 33 سال سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں اور اب تک مسلسل 66 عیدیں اسرائیلی قید خانوں میں گذار چکے ہیں۔
رپورٹ میں ولید الدقہ کی زندگی اور اس کے حالات پر مختصر روشنی ڈالنے کے ساتھ ان کی خواہشات پر روشنی ڈالی ہے۔اسرائیلی جیلوں میں جب عید آتی ہے تو اسیران میں ’معاک فکۃ‘ اور’معاک فراطہ‘ کی اصطلاح زیادہ استعمال کی جاتی ہیں۔
’فکۃ‘ کامطلب’کمی‘ اور ’فراط‘ کا مطلب وافر ہونا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ہر قیدی دوسرے سے عید سے قبل پوچھتا ہے کہ آیا اس کے پاس نقدی کم ہے یا کافی ہے۔ نقدی ہی کی بنیاد پر وہ عید کی خوشیاں دوبا بالا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سوال ہرچھوٹے اور بڑے سے پوچھا جاتا ہے۔ چونکہ قیدیوں کو اپنے پاس نقدی رکھنے پر پابندی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ زیادہ رقم اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔
معمول کا سوال
اسیر ولید الدقہ 33 سال سے اسرائیلی زندانوں میں قید ہیں۔ اسیری کا ایک طویل عرصہ قید تنہائی اور تنگ اور تاریک کوٹھڑی میں گذارا۔ ان کا کہنا ہے کہ میری زندگی کا ایک بڑا حصہ اسیری کے کٹھن دور میں گذرا ہے اوردن اور رات کا زیادہ تر وقت رونے میں گذرا۔ اس کا کہنا ہے کہ اسیران کی طرف سے عید کے مواقع پر اسے سب سے زیادہ جو سوال پوچھا گیا کہ آیا اس کے پاس نقدی کتنی ہے۔ کم ہے یا کافی ہے۔
دوسری دنیا
اسرائیلی زندانوں میں قید دنیا کی رونقوں اور رنگینیوں سے دور فلسطینی اسیران کے پاس حسین خواب دیکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ وہ جیل سے باہر کی زندگی کے حسین لمحات اور یادگار واقعات کو یاد کرتے ہیں۔ اپنے الفاظ کو کہانیوں، افسانوں اور منظوم کلام میں بیان کرتے ہیں۔ اُنہیں اپنے پیاروں کو بھیجا جاتا ہے۔ اپنے وکلاء کے سامنے بیان کیا جاتا ہے۔
اسیر دقہ نے عیدالاضحیٰ سے ایک روز قبل اپنے وکیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 33 سال سے میں نے عید پر نئے کپڑے نہیں پہنے اور نہ ہی میرے پاس زیادہ رقم ہوتی ہے۔ بچوں میں تقسیم کرنے کے لیے میرے پاس کسی قسم کی مٹھائی نہیں۔ مگرمیں مایوس رہنےوالے لوگوں میں سے نہیں۔
57 سالہ ولید دقہ کو سنہ 1986ء کو حراست میں لیا گیا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی، بعد ازاں ان کی قید میں 2 سال کا اضافہ کردیا گیا۔ دقہ پر ایک صیہونی فوجی کے اغواء کے بعد قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا اور اسی الزام کے تحت اس پر مقدمہ چلایا گیا۔