(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) امریکی ریاست فلوریڈا کے SpasceX نامی خلائی اسٹیشن سے ستمبر2016ء کے اوائل میں ’’عاموس6‘‘ نامی اسرائیل کے مصنوعی سیارے کو خلاء میں چھوڑتے ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ’’عاموس 6‘‘ تباہی سے دوچار ہوا۔
کروڑوں ڈالر کی لاگت سے امریکا کے تعاون سے تیار کیے گئے اس مصنوعی سیارے کی تباہی دراصل صہیونی ریاست کی تسخیر کائنات کی کوششوں کی تباہی اور خلائی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے اسرائیلی خوابوں کی ناکامی ہے۔’عاموس6‘ کی تباہی کے بعد جہاں اسرائیلی حکومت سکتے میں ہے وہیں اسرائیلی ذرائع ابلاغ، تحقیقی ادارے، تھینک ٹینک سب حیران وششدر ہیں کیونکہ مصنوعی سیارے کی تباہی اس پراسرار انداز میں ہوئی ہے جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ عاموس چھ کی تباہی کے بعد صہیونی ریاست کے اندر سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ تل ابیب کو اس میدان میں ہنرآزمائی کی کوششیں ترک کر دینی چاہئیں۔
حیران کن حادثہ
اسرائیل کے کثیرالاشاعت عبرانی اخبار’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے امریکا میں تباہ ہونے والے اسرائیلی خلائی سیارے کے حادثے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی سیارہ امریکی ریاست فلوریڈا کے’کیپ کینافیرال‘‘SpaceX‘‘ نامی اسٹیشن سے لانچ کیا جانا تھا۔ اسرائیل اور امریکا کے خلائی سائنسدانوں نے مکمل تیاری کے بعد مصنوعی سیارے کو خلاء میں چھوڑنے کے لیے ریمورٹ کنٹرول کا بٹن دبایا مگر اس کے نتیجے میں مصنوعی سیارے کا میزائل اپنے اڈے سے اٹھنے کے بعد آگ کی لپیٹ میں آگیا۔آگ لگتے ہی زور دار دھماکے شروع ہوگئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکہ اس قدر زور دار تھے کہ کئی کلو میٹر دور ان کی نہ صرف آواز سنی گئی بلکہ عمارتیں لرز کر رہ گئی تھیں۔
اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل سمیت دنیا بھر کے خلائی تحقیق دان حیران اور ششدر ہیں کہ آیا مصنوعی سیارے میں آگ کیوں کر لگی اور اس میں دھماکے کیوں اور کیسے ہوئے ہیں؟
عبرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ خلائی سائنسدان ’’عاموس 6‘‘ میں ہونے والے دھماکے کے اسباب جاننے کی پوری کوشش کر رہے ہیں مگرانہیں اس سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ جو مصنوعی سیارہ 20 کروڑ ڈالر مالیت سے تیار کیا گیا تھا وہ آخر کیوں کر تباہی سے دوچار ہوا ہے۔
اسرائیل کی خلائی تحقیقاتی ایجنسی کے چیئرمین اسحاق بن اسرائیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے پوری زندگی کبھی ایسا کوئی واقعہ نہ دیکھا اور نہ ہی کبھی سنا کہ خلائی سیارے میں دھماکے کے بعد آگ لگ گئی ہو۔ بادی النظر میں خلائی اسٹیشن پرایسی کوئی تکنیکی خراب بھی دکھائی نہیں دیتی جس کی بناء پر یہ شبہ کیا جا سکے کہ اس کی بناء پر مصنوعی سیارہ تباہی سے دوچار ہوا ہے۔ ہر اعتبار سے یہ حیران کن ہے کہ خلائی سیارہ خلاء میں چھوڑنے سے قبل ہی زمین پر دھماکوں سے لرزاٹھا اور آگ کی لپیٹ میں آگیا تھا۔
بن اسرائیل کا کہنا ہے کہ مصنوعی سیارے کی تباہی نے کئی طرح کے سوالات تو جنم دیے ہیں مگر اس واقعے نے اسرائیل کی خلائی تحقیق کی راہ میں ایک نئی مشکل کھڑی کر دی ہے کیونکہ اڑھائی سال کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں تیار ہونے والے خلائی سیارے نے تسخیر کائنات کے میدان میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ یہ حادثہ اس اعتبار سے بھی خطرناک ہے کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل کے خلائی کمیونیکیشن سیکٹر کو بدترین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اسرائیل اس میدان میں دوبارہ آج ہی سے کام شروع کرے تب بھی اسے کئی سال لگیں گے۔
اقتصادی اور ٹیکنالوجی کا خسارہ
اسرائیلی خلائی تحقیقی ایجنسی کے سربراہ اسحاق بن اسرائیل نے ’’عاموس 6‘‘ نامی خلائی سیارے کی تباہی کو صہیونی ریاست کی معیشت اور ٹیکنالوجی کی صنعت پر کاری ضرب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل خلائی تحقیقاتی ایجنسی کم ازکم بھی تین سال کے مزید سفر کے بعد دوبارہ موجودہ کمی کو پورا کر سکے گی۔
مصنوعی سیارے کی تباہی کے واقعے پر عالمی سطح پر بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔ سماجی رابطے کی مقبول ویب سائیٹ ’’فیس بک‘‘ کے بانی مارک زوکر برگ نے اس حادثے کو ٹیکنالوجی کی دنیا کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’اسپیس ایکس‘‘ کی تباہی نے افریقا جیسے جزیرے میں ٹیلی کمیونیکیشن کی سہولیات کی فراہمی کی کوششوں کو بڑا دھچکا لگایا ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہتا تو اس کے نتیجے میں کئی ایسے ممالک میں انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن کی سہولیات فراہم کی جا سکتی تھیں جہاں پر اب تک یہ سہولت نہیں پہنچ پائی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ عاموس 6 کی تباہی کی خبر سنتے ہی اسرائیلی اسٹاک مارکیٹ دھڑام سے نیچے آن گری تھی۔ اسٹاک مارکیٹ سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک دن میں اسٹاک مارکیٹ 9 فی صد خسارے میں چلی گئی تھی۔
عاموس چھ کو خلاء میں چھوڑنے سے قبل بلند بانگ دعوے کیے جا رہے تھے۔ اسرائیلی ٹیلی کمیونیکیشن فرموں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’عاموس 6‘‘ نامی خلائی سیارے کے خلاء میں پہنچنے سے سنہ 2017ء میں اسرائیل میں ٹیلی کمیونیکیشن کا ایک نیا انقلاب آئے گا اور اسرائیلی ٹی وی چینلوں کی نشریات کا معیار مزید بہتر ہو گا۔ مگر ان تمام دعوؤں پر اس وقت پانی پھر گیا جب یہ خبر آئی کہ ’’عاموس 6‘‘ نامی مصنوعی سیارہ سرے سے خلاء میں چھوڑا نہیں جا سکا بلکہ وہ زمین سے نکلنے سے قبل ہی دھماکوں سے تباہ و برباد ہو گیا۔
عاموس 6 کیا ہے؟
اسرائیل نے ’’عاموس‘‘ کے نام سے خلائی سیاروں کی ایک سیریز تیار کرنا شروع کی ہے۔’’عاموس 6‘‘ اس سلسلے کی چھٹی کڑی قرار دی جاتی ہے جسے امریکی خلائی سائنسدانوں کی مدد سے تیار کیا گیا تھا۔ اس مصنوعی سیارے کی تیاری میں اسرائیل کی خلائی کمپنی Spacecom کا کلیدی کردار سمجھا جاتا ہے۔ عاموس 6 دراصل عاموس 2,، عاموس3 اور اس سلسلے کے دوسرے خلائی سیاروں کا ایک بہتر اور جدید سہولیات سے آراستہ سیارہ تھا جسے چھوڑںے کا مقصد امریکا، یورپ اور براعظم افریقا کے ملکوں کو ٹیلی کمیونیکیشن کی سہولیات مہیا کرنا تھا۔ اس سے قبل عاموس 5 بھی بعض افریقی ملکوں کو انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کر رہا ہے مگر اس کا دائرہ کار محدود ہے۔
اسرائیل نے ’’عاموس‘‘ نامی مصنوعی سیاروں کی تیاری کا سلسلہ 16 مئی 1996ء میں شروع کیا۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی عاموس 1 تھی جب کہ سنہ 2009ء میں عاموس 5 خلاء میں چھوڑا گیا۔ قبل ازیں 28دسمبر 2003ء کو عاموس 2 خلاء میں چھوڑا گیا 28 اپریل 2008ء کو عاموس 3 اور 31 اگست 2013ء کو عاموس 4 خلاء میں بھیجا گیا۔
عاموس 5 اسرائیل اور روس کے ماہرین کی مشترکہ مساعی کا نتیجہ تھا۔ اس مصنوعی سیارے کو بھی براعظم افریقا کے ملکوں میں ٹیلی کمیونیکیشن کی سہولیات کی فراہمی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
صہیونی حکومت عاموس 6 کی تیاری کے ساتھ ساتھ عاموس 7 کی تیاری کی بھی منصوبہ بندی کر رہی تھی مگر عاموس 6 کے خلاء میں چھوڑنے کے تجربے کی ناکامی نے عاموس سات کا منصوبہ بھی کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔