غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) سنہ 2014ء کی جنگ میں اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر کارپٹ بمباری کر کے ہزاروں فلسطینیوں کے مکانات ملبے کاڈھیر بنا دیے۔ متاثرین میں سنہ کریم ابو فطار کا مکانÂ بھی شامل تھا۔
اسرائیلی بمباری سے سنہ 2014ء کی جنگ میں کریم ابو فطائر مکان کی چھت سے محروم ہوگیا۔ بڑی مشقت سے اس نے اپنا مکان دوبارہ تعمیر کیا مگر مکان کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس میں رہنا ان کے مقدر میں نہیں تھا۔غزہ کی پٹی کے علاقے دیر البلح کے رہائشی 30 سالہ کریم حال ہی میں صیہونی ریاست کے مظالم کے خلاف ایک مظاہرے میں شریک تھا کہ اس دوران صیہونی نشانہ بازوں نے اس کے سر میں گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
کریم اپنے گھر کا اکلوتا کفیل ہونے ہونے کے ساتھ ساتھ چار بچوں کاباپ بھی تھا۔ کریم ابو فطائر نے غرب اور صیہونی ریاست کی جارحیت کامقابلہ کرتے ہوئے زندگی بسر کی۔ اس کی زندگی ایک مجاھد کی زندگی اور موت شہادت کی موت تھی۔ بالآخر وہ چار بچوں اورایک بیوہ کو چھوڑ کر قافلہ شہداء میں شامل ہوگئے۔
ابو فطائر کو اسرائیلی نشانہ بازوں نے اس کے سرمیں گولیاں ماریں۔ جب گولی ماری گئی تو اس وقت وہ مشرقی البریج کیمپ میں موجود تھے اور احتجاجی ریلی میں شریک تھے۔ خون میں لت پت اسے اٹھا کر اسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جاں بر نہ ہوسکا اور بالآِخر جام شہادت نوش کرگیا۔ ان کے چار کم عمر بچوں میں سب سے چھوٹے کی عمر صرف ڈیڑھ سال ہے۔
میرا بھائی اور دوست
کریم ابو فطائر کے بھائی فضل ابو فطائر کا کہنا ہے کہ شہید ہوکر ابو فطائر پورے خاندان کو دکھ اور صدمہ دے گئے مگر اپنا خون فلسطین کی تحریک آزادی کی آبیاری پر بہا دیا۔
اس کے چار بچے ہیں جو اب یتیمی کی زندگی بسر کریں گے۔ انہوںÂ کہ سنہ 2014ء کو ان کے ہاں بیٹے نے جنم لیا، وہ نہیں جانتا تھاکہ ان کے والد کتنے غریب اور اسی غربت میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔
اسرائیلی ظلم کی زندہ مثال
اگرچہ کریم ابو فطائر اپنے بہن بھائیوں میں درمیانے تھے مگر وہ اپنی شخصیت کی طاقت اور خاندان کی کفالت کی وجہ سے دوسرے بہن بھائیوں سے آگے تھے۔ ان کے والد اس وقت فوت ہوئے جب ابو فطائر چار سال کے تھے۔ جب لڑکپن کو پہنچے تو خاندان کی کفالت کی ذمہ داری آن پڑی۔
علی ابو فطائر کریم ابو فطائر کے بڑے بھائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اب بھی یقین نہیں کہ ابو فطائر اب ہمارے درمیان میں نہیں رہے ہیں لیکن صیہونی نشانہ باز دہشت گردوں نے اس کی بائیں آنکھ پر گولی ماری اور وہ گولی لگنے سے جام شہادت نوش کرگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کریم ابو فطائر غریب ہونے کے باوجود اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے لیے ایثار سخاوت کے پیکر تھے۔ ان کی تین بہنیں ہیں۔ چند سال قبل ان کے ایک بہنوئی شہید ہوگئے تو وہ اپنی بیوہ بہن اور اس کے بچوں کے اپنی شہادت تک ہرممکن مدد کرتے رہے۔