فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 31 جولائی کی تاریخ آتے ہی فلسطینی قوم کے ذہنوں میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے ان سرکردہ رہنماؤں جمال سلیم اور جمال منصورکی نہایت نے رحمی کے ساتھ شہادت کی طرف جاتا ہے۔
آج سے 16 برس پیشتر 31 جولائی 2001ء کو اسرائیلی فوج نے بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حماس رہنماؤں جمال منصور اور جمال سلیم کو اسرائیلی فوج نے وحشیانہ انداز میں شہید کردیا۔
مقامی صحافی احمد البیتاوی نے بات کرتے ہوئے حماس رہنماؤں کی شہادت کے واقعے کو دہرایا۔
انہوں نے بتایا کی اکتیس جولائی دو ہزار ایک کو قابض صہیونی فوج نے نابلس شہر میں جمال سلیم اور جمال منصور کے دفتر پرانہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ اس وحشیانہ دہشت گردی میں نہ صرف جمال منصور اور جمال سلیم جام شہادت نوش کرگئے بلکہ ان کے ہمراہ صحافی محمد البیشاوی، عثمان قطنانی، فہیم دوابشہ، عمر منصور اور دو بچے بھی شہید ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے جنگی طیاروں نے دوںوں حماس رہنماؤں کو شہید کرنے کے لیے جنگی طیارے سے ان کے دفتر پر بم گرائے۔
احمد البیتاوی کہنا ہے نے اپنے بلاگ پر لکھا کہ جمال منصور اور جمال سلیم کی شہادت سے پانچ روز قبل دونوں رہنما نے جماعت کے ایک دوسرے لیڈر صلاح دروزہ المعروف ابو النور کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی۔ ابو النور کو بھی اسرائیلی فوج نے ٹارگٹ کلنگ کارروائی میں شہید کردیا تھا۔
شہید ابو النور کے جنازے کے ایک طرف احمد البیتاوی کے والد الشیخ حامد البیتاوی، دائیں جانب جمال سلیم اور ایک طرف الشیخ احمد الحاج علی تھے۔
جمال سلیم اور جمال منصور نے شہید ابو النور کے جنازے کو کندھا دیا اور انہیں آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔
اکتیس جولائی دو ہزارایک کو انتفاضہ اپنے انتہائی مشکل دور میں تھی کیونکہ اس روز اسرائیلی دشمن نے اپاچی ہیلی کاپٹروں نے جمال منصور اور جمال سلیم کو شہید کرنے کے لیے ان کے دفتر پر بمباری کی۔
اگلی صبح صہیونی فوج نے نابلس کا محاصرہ کرلیا اور شہداء کے جنازوں میں شرکت سے روکنے کے لیے تمام مکروہ حربے استعمال کیے گئے مگر اس کے باجود ڈیڑھ لاکھ فلسطینیوں نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
یہ صرف دو شہید نہیں بلکہ چھ شہداء کا ایک قافلہ تھا جس کے چاروں اطراف حماس اور القسام بریگیڈ کے ہزاروں جانثار انہیں کندھا دیئے ہوئے تھے۔ تا حد نگاہ لوگوں کے سروں کا سمندر تھا اور ہرطرف سے انتقام انتقام کے فلگ شگاف نعروں سے فضاء گونج رہی تھی۔
اسرائیلی دشمن کی طرف سے جمال منصور اور جمال سلیم کی شہادت کو بہت بڑی کامیابی قرار دیا جانے لگا۔ اسرائیلی میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا جمالین کی شہادت نے حماس پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔
جمال منصور کم عمری کے باوجود فلسطینی قوم کے ہیروز میں شامل تھے۔ نہ صرف غرب اردن بلکہ فلسطین کے دوسرے علاقوں میں بھی نوجوان فلسطینی انہیں اپنا لیڈر مانتے اور انہیں اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیتے۔ وہ دل سے مخاطب ہوتے، عقل سے کام لیتے، قابل عمل نمونہ تھے۔ یونانی حکما کی طرح مختصر مگر جامع بات کرتے کرتے، خندہ پیشانی سے پیش آتے،صابر شاکر، سب کا یکساں احترام کرنے والے تھے۔
فلسطین کی تمام عسکری اور مذہبی جماعتوں میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ دیکھنے میں بیس سال کے ایک نوجوان لگتے تھے مگر عملا وہ وسیع تجربہ رکھنے والے ایک جہاں دیدہ رہنما سے کم نہ تھے۔
رہے جمال سلیم تو انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز پرائمری اسکول میں ایک استاد کی حیثیت سے کیا۔ وہ جمال منصور کی خوبیوں سے متصف تھے۔ دونوں کی خوبیوں میں کافی حد تک یکسانیت اور مماثلت تھی۔ وہ ایک شعلہ بیان خطیب اور بلا کی فصاحت وبلاغت کے حامل اہل زبان تھے۔ شہداء کے جنازوں میں ان کے جذباتی خطابات مشہور تھے اور انہیں شوق سے سنا جاتا تھا۔
اپنی شہادت سے چند ہفتے پیشتر انہوں نے شہادت ہی کے موضوع پر ایم اے کا مقالہ لکھا۔ ان کے اس مقالے کا عنوان تھا’ اسلام میں شہید کے احکام ومسائل‘۔ یہ مقالہ ان کی طرف سے یہ پیغام تھا کہ وہ نہ صرف تحریری طور پر شہادت کے فلسفے کے ماہر ہیں بلکہ اپنے لہو سے ارض فلسطین کو سیراب کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ شہید جمال سلیم اخوان المسلمون کے رہنما اور جلیل القدر عالم دین سید قطب شہید کی فکر سے متاثر تھے۔