اکیس اگست کی تاریخ کو کئی دوسرے فلسطینی مجاھدین بھی صہیونی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ وہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے خود کو امر ہوگئے مگر ان کے خون سے روشن ہونے والی تحریک آزادی کی شمع اب بھی جل رہی ہے۔
شہید اسماعیل ابو شنب
حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے کمانڈر شہید ابو شنب کا ایک قول مشہور ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’نظریہ میرا زمانہ اور ویژن میری تہذیب ہے‘۔ جہاد آزادی فلسطین کی راہ پرخار پرقدم رکھتے ہی ابو شنب نے ایک مخصوص انداز میں سوچنا شروع کردیا تھا۔ وہ جہاد آزادی فلسطین میں جدت لانے کے پُرزور حامی تھی۔ اپنی شہادت تک وہ مجاھدین اور تحریک آزادی کو ان نئی معاصر جہتوں سے روشناس کرنے کی فکر میں سرگرم رہے۔
انجینیر اسماعیل حسن محمد ابو شنب المروف ’ابو حسن‘ 28 مارچ 1950ء کو غزہ کی پٹی میں الیرموک گراؤنڈ میں قائم پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں کا خاندان وسطی غزہ کی پٹی میں النصیرات پناہ گزین کیمپ میں منتقل ہوگیا۔ زندگی کا ابتدائی دور انتہائی کٹھن حالات میں گذرا۔ سنہ 1977ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے اور شہادت تک ان کے 8 بچے تھے۔
شادی سے قبل اور اس کے بعد شہید ابو شنب کی معمولات زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ وہ ایک ہی وقت میں جہاد آزادی فلسطین کے دلیر اور سرفروش مجاھد، ایک متحرک سیاسی کارکن، ایک ہمدرد سماجی رہنما اور ایک پیشہ ور انجینیر تھے۔ انہوں نے چونکہ انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی، یہی وجہ ہے کہ سنہ 1976ء میں انہوں نے فلسطین میں انجینیر فیڈریشن کی داغ بیل ڈالی۔ اگرچہ بعد ازاں اس پیشے سے وابستہ افراد نے اور بھی تنظیمیں قائم کیں مگر ابو شنب کی تشکیل کردہ تنظیم اب بھی فلسطین کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔
اسی سال انہوں نے اپنے کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر اسلامی آرگنائزیشن قائم کی۔ یہ بالعموم پورے فلسطین بالخصوص غزہ کی پٹی میں سب سے بڑی فلاحی اور سماجی تنظیم ہے۔ سنہ 1978ء میں انہیں اسپورٹس لیگ کا رکن بھی مقرر کیا گیا۔
سنہ 1970ء کے اخیر اور 1980ء کے اوائل میں اسماعیل ابو شنب اخوان کی مجلس شوریٰ کے رکن اور غزہ میں اس کی انتظامی کمیٹی کے ممبر تھے۔
سنہ 1980ء میں اردن میں ہونے والی اخوان کی مجلس شوریٰ کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں ابو شنب بھی شامل تھے۔ اس اجلاس میں فلسطین کی تحریک آزادی کے لیے مسلح جدو جہد کی حمایت کی گئی تھی۔
سنہ 1983ء سے 1987ء تک ابو شنب نابلس کی جامعہ النجاح میں اسلامی تحریک کے قاید کے طورپر کام کرتے رہے۔
سنہ 1988ء میں اسلامی تحریک مزاحمت’حماس‘کی تشکیل میں بھی اسماعیل ابو شنب کا کلیدی کردار ہے۔ شہید ابو شنب حماس کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ اسرائیل نے انہیں سنہ 1988ء میں پہلی بار گرفتار کرکے جیل میں ڈالا۔
شہید قائدین
اکیس Â اگست کے روز صہیونی دہشت گردی میں شہید ہونے والے فلسطینی مجاھد رہنماؤں میں القسام بریگیڈ کے تین اور سرکردہ رہنما بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے دو عشرے صہیونی ریاست کی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت میں صرف کیے۔ القسام بریگیڈ کو چاقو کی ہتھیار سے راکٹ اور ڈرون طیاروں کی دنیا تک پہنچایا۔
اکیس اگست 2014ء کو اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری میں القسام بریگیڈ کے تین سرفروشوں 41 سالہ محمد ابراہیم صلاح ابو شمالہ المعروف ابو خلیل،40 سالہ رائد صبحی احمد العطار المعروف ابو ایمن اور 45 سالہ محمد حمدان برھوم ابو اسامہ کو شہید کیا۔
ان تینوں القسام کمانڈروں کی شہادت بھی اکیس اگست کو ہوئی۔ ان تینوں نے اپنی زندگی کے 20 ،20 سال تحریک آزادی فلسطین میں صہیونی دشمن کو ناکو چنے چبوائے تھے۔ بزدل دشمن انہیں براہ راست کسی مقابلے کے بجائے فضائی بمباری کے ذریعے شہید کرنے کا مرتکب ہوا۔
ابو شمالہ القسام بریگیڈ کے نمایاں ترین بانی ارکان میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف براہ راست اسرائیل کے خلاف کئی معرکوں میں حصہ لیا بلکہ Â انتفاضہ اوّل کے دوران غزہ کی پٹی میں دشمن کے ساتھ تعاون کرنے والے ایجنٹوں کا قلع قمع کرنے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔
دوسری تحریک انتفاضہ میں بھی ابو شاملہ کلیدی ذمہ داریوں پر مامور رہے۔
شہید رائد العطار ابو شمالہ کے دوست تھے اور دونوں کا القسام بریگیڈ کی تاسیس اور اس کے بعد اسے تقویت دینے میں نمایاں کردار ہے۔
العطار نے بھی پہلی تحریک انتفاضہ کے دوران دشمن کے ایجنٹوں کے کلاف کارروائی میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کے تیسرے ساتھی شہید محمد برھوم سنہ 1992ء میں اسرائیلی فوج Â کے تعاقب میں آئے۔ وہ چپکے سے بیرون ملک نکل گئے اور کئی ملکوں میں قیام کیا۔ اس دوران صہیونی خفیہ ادارے ان کی تلاش میں سرگرم رہے مگر ان تک نہیں پہنچ سکے۔ دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران وہ واپس غزہ لوٹ آئے۔