مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) سال 2017ء رخصت ہوا۔ گذرا سال فلسطینی قوم کے لیے کئی آزمائشوں، مصائب اور مشکلات کا سال تھا۔ نیا سال کیسا ہوگا اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، مگر قرائن بتاتے ہیں کہ رواں سال بھی فلسطینی قوم کے لیے کم گھمبیر نہیں ہوگا۔
گذشتہ برس فلسطین میں صیہونی آباد کاری کا اژدھا ارض فلسطین کو مسلسل نگلتا رہا۔ یہ ایک ایسا اژدھا ہے جو فلسطین میں خشک وتر کو نگل رہا ہے۔ ایک ایسی آگ ہے جو ہر چیز کو جلا کر بھسم کر رہی ہے۔ سنہ 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان تقسیم کردہ اراضی میں فلسطینی اتھارٹی کے حصے میں آنے والے علاقے بھی مسلسل صیہونی توسیع پسندی کے نرغے میں ہیں۔صیہونی آباد کاری کیوں قابل مذمت ہے؟ اس کا جواب واضح اور دو اور دو گیارہ کی طرح سیدھا سادا ہے، صیہونی آباد کاری آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ’پیغام موت‘ ہے۔ صیہونی توسیع پسندی اور آباد کاری فلسطینی مملکت کے قیام کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنے کا ایک حربہ،آزاد فلسطینی مملکت اور فلسطینی قوم کی امنگوں، ان کے حق خود ارادیت کے لیے ’آلہ قتل‘ ہے۔
ایک ملین گھر منصوبہ
سال 2017ء فلسطین میں صیہونی آباد کاری کا انتہائی خطرناک سال قرار دیا جا رہا ہے۔ صیہونی آباد کاری کے منصوبوں میں انتہائی خطرناک وہ منصوبہ ہے جس کا اعلان حال ہی میں اسرائیلی وزیر برائے ہاؤسنگ ’یواف گالانٹ‘ نے کیا۔ مسٹر گالانٹ کا کہنا تھا کہ وہ اگلے 20 سال کے دوران فلسطینی علاقوں میں 10 لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے 30 فی صد یعنی تقریبا تین لاکھ گھر بیت المقدس میں تعمیر کیے جائیں گے۔
یہ تین لاکھ گھروں کی تعمیر دراصل صیہونی ریاست کے ’عظیم تر یروشلم‘ کے نام نہاد غاصبانہ پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اسرائیل بیت المقدس میں’ معالیہ ادومیم‘ کو القدس میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ معالیہ ادومیم میں غرب اردن کےعلاقے شامل ہیں۔ اس کالونی کی توسیع کے لیے صیہونی ریاست نے 12 ہزار دونم اراضی غصب کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ایک دونم تقریبا ایک ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ ہے۔
آباد کاری کے لیے قانون سازی کے حربے
سنہ 2017ء جہاں فلسطین میں زمین پر صیہونی آباد کاری کا سلسلہ جاری رہا وہیں فلسطینی اراضی پر غاصب قبضے کو سند جواز مہیا کرنے کے لیے نام نہاد قانون ساز اداروں سے نئے نئے کالے قانون بنانے اور انہیں نافذ کرنے کا ظالمانہ عمل بھی جاری رہا۔
فلسطینی تجزیہ نگار سھیل خلیلیہ نے کہا کہ سال 2017ء کے دوران کنیسٹ سے منظور ہونے والا ’تصفیہ بل‘ ہے۔ اس ظالمانہ قانون کی آڑ میں صیہونی ریاست کو فلسطینی املاک متروکہ کو کسی بھی صیہونی آباد کار یا گروپ کو دینے کا مجاز قرار دیا گیا۔
اس نام نہاد قانون کی منظوری کے بعد اسرائیلی حکومت کو فلسطینی شہریوں کی املاک متروکہ اور اراضی پر قبضہ کرنے کا حق مل گیا۔ حتیٰ کہ صیہونی ریاست فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام علاقوں میں موجود املاک متروکہ میں بھی تصرف کی مجاز ہے۔
اسی طرح ’گریٹر القدس قانون‘ بھی گذشتہ برس فلسطین میں صیہونی آباد کے جو جواز فرہم کرنے کا مجرمانہ صیہونی حربہ قرار دیا جائے گا۔ اس قانون کے تحت معالیہ ادومیم کو القدس میں شامل کرنے اور تین دوسری صیہونی کالونیوں کو بھی القدس میں ضم کر کے عظیم تر القدس کے نام نہاد منصوبے کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار کی گئی۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہÂ جن تین صیہونی کالونیوں کو القدس میں شامل کرنے کے لیے قانون منظور کیا گیا ان کا کل رقبہ 175 مربع کلو میٹر ہے۔ یہ کل رقبہ القدس کا 140 فی صد ہے۔ یہ مشرقی اور مغربی القدس دونوں کو ملا کر بنتا ہے۔ یوں مجموعی طور پر عظیم تر القدس 300 مربع کلو میٹر بنتا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار الخلیلیہ کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست کا القدس اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں آباد کاری کے ذریعےآبادی کا توازن تبدیل کررہی ہے۔
اس ضمن میں صیہونی القدس میں موجود 20 کالونیوں کا اسٹیٹس تبدیل کر کے ان سب کو ایک ہی کالونی میں ضم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
غرب اردن کی 41 فی صد اراضی پر قبضہ
تجزیہ نگار خلیلیہ کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست غرب اردن کے 41 فی صد علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ مشرقی بیت المقدس پر قبضے کو آگے بڑھاتے ہوئے غرب اردن میں بھی مزید آباد کاری کے لیے صیہونی کالونیاں قائم کرنا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صیہونی ریاست غرب اردن کے ان علاقوں میں توسیع پسندی کے منصوبے آگے بڑھا رہی ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال یا پانی، قدرتی ماحول کے حوالے سے مشہور ہیں۔
اس طرح صیہونی ریاست آبادی کا توازن تبدیل کرتے ہوئے فلسطین کے قدرتی وسائل کو بھی اپنے قبضے میں لینے کی سازشوں میں سرگرم ہے۔
صیہونی آباد کاروں کو قبضے کے اختیارات
فلسطینی تجزیہ نگار جاد اسحاق کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی آباد کاری کے سال 2017ء کے انتہائی خطرناک اقدامات میں صیہونی آباد کاروں کو فلسطینی اراضی پر قبضے کا اختیار دینے کا فیصلہ ہے۔
اناطولیہ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اسحاق نے کہا کہ صیہونی آباد کاروں کو وادی اردن میں اپنی مرضی کے مطابق فلسطینی اراضی ہتھیانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جب فلسطینیوں نے صیہونی ریاست کے اس مجرمانہ حربے کے خلاف احتجاج کیاÂ تو صیہونی ریاست کی طرف سے کہا گیا کہ فلسطینیوں کی ملکیتی اراضی کے حوالے سے صیہونیوں کےساتھ معاہدہ کرانے کا نیا ڈرامہ رچایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل کے ’ایچ 2‘ زونÂ میں بھی صیہونی آباد کاروں کو فلسطینیوں کی املاک پر غاصبانہ قبضے کا حق دیا گیا ہے۔
منصوبے کے مطابقÂ غرب اردن میں مزید 55 ہزار مکانات کی تعمیر کا منصوبہ اسرائیلی کنیسٹ میں بحث کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ بیت المقدس میں فلسطینی آبادی کو کم کرنے کا صیہونی حربہ بھی روبہ عمل ہے۔ صیہونی ریاست فلسطینی آبادی کو 38 فی صد سے کم کرکے 22 فی صد تک لانا چاہتی ہے۔