مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) آج سے بیس سال قبل عظیم فلسطینی مجاھد رہنما اور فلسطینی قوم کے ہیرو خالد مشعل کو اردن کے دارالحکومت عمان میں جان سے مارنے کی سازش کی گئی۔ انہیں زہر دے کر شہید کئے جانے کی صہیونی سازش ہم سب کے لیے ایک جھٹکے سے کم نہیں تھی۔
خالد مشعل کو شہید کرنے کی سازش کے الزام کے بعد آج بیس سال ہوچکے ہیں۔ مشعل اس سازش میں بچ گئے بلکہ انہیں اس سازش کی ناکامی کے بعد ایک نئی زندگی ملی۔اس بیس سالہ عرصے میں فلسطین اور خطے میں کئی غیرمعمولی تبدیلیاں آئیں۔
سنہ 1991ء میں اوسلو میں تنظیم آزادی فلسطین کا اجلاس ہوا جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ یوں ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے تحفظ اور سلامتی کا عہد کیا گیا۔
سنہ 1994ء میں اردن اور اسرائیل کے درمیان امن معاہد طے پایا جسے ’وادی عربہ معاہدہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی برادری نے اوسلو معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کی تشکیل شروع کی۔ اس کے سیاسی، سیکیورٹی اور اقتصادی ڈھانچے کے خدو خال تیار کیے گئے۔
اسی عرصے میں فلسطینی قوم کے ایک طبقے اور خطے کے بعض ممالک نے اوسلو معاہدے کو قبول کرتے ہوئے اس اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا۔
حماس اور اسلامی جہاد سمیت فلسطینیوں کی اکثریت نے معاہدہ اوسلو کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس معاہدے کو ختم کرانے کے لیے ایک نئی سیاسی جنگ شروع ہوگئی۔
اسی دوران فلسطین میں صہیونی ریاست کے خلاف ایک بڑی تحریک اٹھی۔ فلسطینی نوجوانوں نے فلسطین کے تمام شہروں حتیٰ کہ القدس، نتانیا اور تل ابیب میں جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی بڑی کاروائیاں کیں۔
مارچ 1996ء کو شرم الشیخÂ میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مزاحمت کا گھیراؤ کرنے اور اسے ’دہشت گردی‘کی تعریف سے جوڑنے کی مذموم حکمت عملی اپنائی گئی۔
اس کے بعد بیت صوریف فلسطینی مزاحمتی سیل کے مجاھدین کو فلسطینی اتھارٹی نے پکڑ کراسرائیلی دشمن کے حوالے کردیا۔
اسی عرصے میں بنجمن نیتن یاھو شمعون پیریز سے آگے بڑھ کر اقتدار پر فائز ہوا اور معاہدہ اوسلو کے ساتھ مزاحمت کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔
خطے میں اس وقت تشویش اور کشیدگی کی لہر دوڑ گئی جب نیتن یاھو نے گیم رول تبدیل کرنا شروع کردیے اور تمام واقعات کی ذمہ داری حماس پر عائد کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ دشمن نے الزام عائد کیا کہ حماس کو بیرون ملکÂ بالخصوص خالد مشعل کی جانب سے ہدایات مل رہی ہیں۔
نیتن یاھو نے لڑائی کا معرکہ بیرون ملک منتقل کیا اور تمام پرانے عہدو پیمان کو تورتے ہوئے تحریک حماس کو بھاری نقصان پہنچانے کا فیصلہ کیا۔
خالد مشعل کو شہید کرنے کی سازش ناکام ہوئی۔ خالد مشعل کو شہید کرنے کے لیے اردنی سرزمین تک رسائی کی صہیونی سازش بے نقاب ہونے کے بعد شاہ حسین نے اردن کے موقف کو مضبوط بنانے کے لیے اہم نکات طے کیے۔
مشعل کے ساتھی حملہ آوروں کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوگئے اور مشعل کو علاج کے لیے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ الشیخ احمد یاسین شہید کو جیل سے نکالا گیا۔
انہوں نے مشعل کے ہمراہ عرب ممالک کا دورہ کیا۔ اس دورے نے حماس اور فلسطینی قوم کی عرب اور اسلامی دنیا میں عزت اور وقار میں اور بھی اضافہ کردیا۔
خالد مشعل واپس جماعت کے سیاسی شعبے کے سربراہ بنے اور الشیخ احمد یاسین غزہ منتقل ہوگئے جہاں یاسرعرفات کی موجودگی میں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔
الشیخ احمد یاسین اور یاسرعرفات کو اندرون ملک میں شہید کردیا گیا مگر مزاحمت ایک تزویراتی حکمت عملی کے طور پرزندہ وجاوید ہے۔ مزاحمتی چراغ کی لو کم نہیں بلکہ روز بہ روز تیز ہو رہی ہے۔