غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں قائم شہداء الاقصیٰ اسپتال میں زیرعلاج ایک فلسطینی شہری 13 سال سے مسلسل انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق نوجوان ناصر البحیصی کو سات سال کی عمر میں ’ٹیٹرا پلیجیا‘ یعنی دونوں پاؤں اور دونوں بازوں کے فالج کا مرض لاحق ہوا۔ وہ مسلسل تیرہ سال سے مصنوعی آکسیجن پر زندہ ہے۔البیحصی کی بیماری 18 جنوری کو 13 سال مکمل کرنے کے بعد 14 ویں میں داخل ہوگئی ہے۔ ساڑھے سات سال کی عمر میں اسے یہ بیماری اس وقت لاحق ہوئی جب وہ ایک ٹریفک حادثے میں زخمی ہوا۔ اسے اسپتال منتقل کیا گیا مگر اس کے دونوں بازو اور دونوں ٹانگیں مفلوج ہوگئیں۔
آغاز میں اسے غزہ کے ایک سے دوسرے اسپتال میں منتقل کیا جاتا رہا۔ کچھ عرصہ اسرائیل کے اسپتالوں میں بھی زیرعلاج رہا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی اور اس میں موجود سانس لینے اور حرکت کرنے میں مدد دینے والے ریشے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
اولوالعزمی کی مثال
شہداء الاقصیٰÂ اسپتال میں زیرعلاج فلسطینی ناصر البحیصی کی عیادت شاید ہی اہل علاقہ میں سے کسی نے نہ کی ہو۔ وہ شدید بیمار ہونے کے باوجودÂ یونیورسٹی میں تیسرے سال کا امتحان بہترین نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔
مفلوج فلسطینی ناصر البحیصی کے والد سمیر البحیصی نے بتایا کہ ناصر اس وقت بیماری کا شکار ہوا جب وہ اسکول میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ بیماری اور انتہائی نگہداشت وارد میں زیرعلاج ہونے کے باوجود ناصر نے اپنا تحصیل علم کا شوق ٹھنڈہ نہیں پڑنے دیا۔
سمیر نے کہا کہ علاج کے تیرہ سال کے دوران اس کی ایک بار بھی سرجری نہیں کی گئی۔ اس نے اپنی تعلیم جاری رکھنے پر اصرار کیا جہاں تک کہ وہ شریعہ کالج میں تیسرے سال کی کلاس میں 85 فی صد نمبر حاصل کیے۔
اپنی دھیمی آواز میں مجاھد صفت ناصر البحیصی نے کہا کہ اسل مفلوج وہ ہے جو اپنے عزم اور ارادے سے مفلوج ہو۔ وہ شخص مفلوج نہیں جس کا جسم مفلوج ہو۔ میرا جسم مفلوج ہے مگر عزم زندہ اور تندرست و توانا ہے۔
ناصر البحیصی سے جب اس اس کا پسندیدہ مضمون پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اسلامی فقہ اس کا پسندیدہ سبجیکٹ ہے اور وہ جامعہ الازھر کے الشریعہ کالج سے فقہ میں تعلیم آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے زبانی امتحان دینے کی اجازت دی ہے اور تحریری امتحان سے اس کی معذوری کے باعث مستثنیٰ کردیا ہے۔
آزمائش کے 13 سال
فالج زدہ ناصر کے والد اور دیگر تمام احباب مسلسل تیرہ سال سے اسپتال میں بیٹے سے ملنے جاتے اور اس کی دیکھ بحال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسپتال کی انتظامیہ، ڈاکٹرز اور الشریعہ کالج کے اساتذہ بھی باری باری ان کی مدد کرتے ہیں اور اس کی تعلیم جاری رکھنے میں اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جاتا ہے۔
سمیر البحیصی نے کہا کہ اس کے بیٹے کی بیماری کی آزمائش 28 جنوری کو 14 ویں سال میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ تیرہ سال کا عرصہ مسلسل مشکلات، تھکاوٹ اورانتہائی کم وقت خوشی کا گذرا ہے۔
ان کا کہنا تھا میرا بیٹا بہت بہادر ہے۔ اس بسترمرگ پر ہے مگرجب بھی اس سے بات کی جاتی ہے کہ ’میں اللہ کریم کی مرضی اور رضاÂ پر خوش ہوں‘ اس کے یہ الفاظ ہم سب کو سکون اور اطمینان ملتا ہے۔
ناصر اس اس کے بھائی زکی کے درمیان برادارنہ تعلق کے ساتھ ساتھ گہری دوستی بھی ہے۔ دونوں کی عمر میں پانچ سال کا فرق ہے مگر جب ناصر کو حادثے میں خطرناک مرض لاحق ہوا تو زکی نے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا تاکہÂ ڈاکٹر بن کر اپنے مریض بھائی کی مدد کرے۔
ناصر کا علاج بھی مسلسل جاری ہے۔ اسے ہفتے میں چار بار باقاعدہ معائنے کے عمل سے گذرار جاتا ہے۔ روز مرہ کی بنیاد پر ہونے والا چیک اپ اور معائنہ اس کے علاوہ ہے۔
زکی کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ قدرتی طریقہ علاج کی تعلیم حاصل کرے گا مگر ناصر کی بیماری نے اس کے لیے اس تعلیم کا راستہ کھول دیا۔