جہاں تک فلسطین کے سرکاری موقف کا تعلق ہے تو وہ واضح رہا۔ فلسطینی عوام اور حکومت نے امریکی اقدامات کومسترد کردیا۔ البتہ عرب ممالک موجودہ کیفیت میں گو مگوں کا شکار ہیں۔ کوئی عرب حکومت امریکی عزائم کی مزاحمت کے لیے آمادہ وتیار نہیں۔ عرب ممالک خود بھی اندرونی طورپر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور وہ عالمی چیلنجز یا علاقائی مسائل کے حل میں خود کو ناکام تصور کرتے ہیں۔
اتھارٹی اور صدی کی ڈیل
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے کہا کہ فلسطینیوں کا ایک طبقہ خود کو امریکیوں تن خواہ دار خیال کرتا ہے۔ ان میں سے بعض کے دوسرے ممالک میں محلات اور جائیدادیں ہیں۔ انہیں وہاں سے لگژری گاڑیاں ملتی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے علاوہ عرب ممالک میں بیشتر حکمران امریکیوں کے باج گزار ہیں۔ وہ امریکی صدر کے صدی کی ڈیل کے منصوبے کی مزاحمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
ڈاکٹر قاسم نے انکشاف کیا کہ امریکی انتظامیہ ایک محدود فلسطینی ریاست کے قیام کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ امریکیوں کے خیال میں جزیرہ نما سینا اور غزہ پر مشتمل ایک چھوٹی ریاست قائم کی جائے گی۔ دوسری جانب غرب اردن اور بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کردیا جائے گا۔
پروفیسر قاسم نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے قیام سے آج تک امریکیوں کے دباؤ کا شکار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق اور مطالبات کو مضبوطی سے تھامنے کے بجائے امریکی طرف داری اور اسرائیل کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے صدی کی ڈیل کے خلاف باضابطہ سرکاری مؤقف جاری نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ امریکا اپنی شرائط پر فلسطینی ریاست کا خواہاں ہے۔ یہ تمام شرائط قضیہ فلسطین کی خدمت نہیں بلکہ صیہونی ریاست کے دفاع اور اس کی سلامتی کے گرد گھومتی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالستار قاسم کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی القدس کے بغیر فلسطینی ریاست کے امریکی تصور کو قبول کرلے گی۔ صیہونی آباد کاری کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ ایسے میں فلسطینی قوم کے پاس وحدت اور مزاحمت کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچے گا۔ عرب ممالک سے کسی اچھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس وقت معدودے چند ممالک کے سوا باقی سب امریکی کاسہ لیس ہیں۔
قضیہ فلسطین کے تصفیے کا پلان
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر نشات الاقطش نے کہا کہ عالمی طاقتیں قضیہ فلسطین کے خلاف سازش، صیہونیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے اور فلسطین میں مغربی طاقتوں کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سازشیں اور سازشی منصوبے ایک صدی سے جاری ہیں۔ عرب ممالک کی طرف سے قضیہ فلسطین کے تصفیے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اس سازش میں عرب ممالک بھی برابر کے شریک ہیں۔ عرب ملکوں میں تبدیلی کی تحریکوں کو فوجی طاقت کے ذریعے کچل کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ عرب ممالک اپنی آمریت پر قائم ہیں۔ سعودی عرب نے سنہ 1936ء کے صیہونی منصوبے کے موافقت ظاہر کی ہے۔
ڈاکٹرالاقطش کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کی القدس کے خلاف سازش ان کی لاپرواہی سے ظاہر ہوتی ہے۔ آج کے دور میں عرب حکومتوں کے نزدیک القدس کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ صیہونی ریاست ’2020‘ نامی پروجیکٹ کے تحت القدس سے 3 لاکھ فلسطینیوں کو نکال باہر کرنے کی سازشیں کررہی ہے۔ القدس میں فلسطینیوں کی آبادی 20 فی صد تک کرنے کی سازش بھی امریکی سازشوں کا حصہ ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ بعض عرب حکومتوں نے اپنے ایجنٹ فلسطین بھیجے ہیں جو بیت المقدس میں سلوان اور باب الخلیل کے اطراف میں فلسطینیوں کی املاک خرید کر انہیں صیہونیوں کو دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر الاقطش کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کی حکومتیں اس لیے امریکا سے تعلق قائم رکھنا چاہتی ہیں تاکہ ان کے اقتدار قائم رہیں۔ ان ممالک کو اندازہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا سے دوستی کے بغیر ان کا اقتدار قائم نہیں رہ سکتا۔ انہیں ہرحال میں امریکا، اسرائیل اور دیگر صیہونیت نواز قوتوں کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔
عرب ممالک کی ایسی بزدلانہ پالیسی اور نامناسب حکمت عملی میں قضیہ فلسطین کا دفاع ممکن نہیں۔ امریکا اور صیہونیوں کے لیے قضیہ فلسطین کے خلاف سازش کا اس سے بہتر اس موقع نہیں۔Â عرب حکومتیں ایک صدی سے اپنی اقوام کو آزادی کی افیون پلانی شروع کی ہے مگر حقیقی معنوں میں عرب ممالک کے حکمران خاندان اپنے عوام کو کھلم کھلا دھوکہ دے رہے ہیں۔
الاققش کا کہنا ہے کہ آنے والے پانچ سال میں بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ عرب بہار نے ممالک میں بہت حد تک تبدیلی کردی ہے۔ عرب بہار ایک بار پھر سر اٹھائے گی، جمہوریت پھلے پھولے گی اور انشاءاللہ فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار ہوگی۔