الخلیل – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) بالعموم تاریخ انسانی بالخصوص فلسطینی تاریخ میں جب ظالم و مظلوم اور ظلم ومظلومیت، استحصال اور جبر وتشدد پر جب بھی کوئی مورخ قلم آزمائی کرے گا تو وہ تا قیامت ’اعلان بالفور‘ جیسے بدنام زمانہ ’اقدام‘ کو ظلم و استحصال نسل پرستی اور جبرو تشدد کا استعارہ قرار دے گا۔
اعلان بالفور کیا ہے؟ اب یہ کوئی انوکھا سوال نہیں رہا۔ بعید نہیں کہÂ آنے والے زمانوں میں ’اعلان بالفور‘ کی اصطلاح کو ایک قوم کے بنیادی حقوق کے استحصال اور کسی قوم کے اجتماعی حقوق پر ڈاکہ زنی کے معنوں میں لیا جانے لگے۔دو نومبر1917ءÂ کو لکھا گیا 67 الفاظ پر مشتمل برطانوی وزیر خارجہ ’آرتھر بالفور‘ کا ایک خط جس میں برطانیہ کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی تھی۔
آج اس نام نہاد اعلان بالفور کو پورے ایک سال مکمل ہوچکے ہیں۔ چونکہ یہ دستاویز برطانیہ کے اس وقت کے وزیرخارجہ کا ایک مکتوب تھا جوانہوں نے فلسطین میں صیہونی آباد کاری کے لیے لکھا، اس لیے اس کے بعد سے آج تک ایک سو سال کے دوران فلسطینی قوم کی مظلومیت کے ساتھ جڑے ہر واقعے میں برطانوی سامراج کسی نا کسی شکل میں ذمہ دار اور قصور وار ہے۔ اگر اس وقت کی برطانوی شہنشاہت ایسا نہ کرتی تو شاید آج کی دنیا موجودہ حالات سے کہیں زیادہ محفوظ ہوتی۔ شاید مشرق وسطی میں کشت وخون نہ ہوتا۔ لوگوں کے لہو کی ندیاں نہ بہتیں۔ صدیوں سے آباد چلی آنے والی فلسطینی قوم پر مظالم کے پہاڑ نہ توڑے جاتے۔ ان کی زمینین چھین کر مشرق ومغرب سے لائے گئے خانما برباد لوگوں کو نہ دیئے جاتے اور سب سے بڑھ کر یہ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ غیروں کے پنجہ استبداد میں نہ ہوتا۔
افسوس تو یہ ہے کہ برطانوی حکومت آج بھی اپنی اس مجرمانہ حرکت اور اقدام پر سراپا فخر و مسرت ہے۔ برطانیہ کے موجودہ وزیرخارجہ کو یہ کہتے سنا گیا کہ فلسطینیوں کے وطن عزیز میں صیہونیوں کے لیے ملک کا قیام ان کے لیے فخر کی بات ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ’نہیں صاحب برطانیہ کو فلسطینیوں کے قتل عام پر فخر ہے‘۔
برطانوی وزیراعظم تھریسا مے جن کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ انسانی حقوق کی علم بردار ہیں، مگر جب اسرائیل اور فلسطینیوں کی مظلومیت کی بات آتی ہے تو ان کی زبان پر اسرائیل کی حمایت کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ وہ اسرائیل کی نسل پرست حکومت کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرتی، صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو نظرانداز کرتی، اسرائیل کی سفارتی، اقتصادی اور سیاسی تنہائی کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ انہیں بھی وزیرخارجہ کی طرح فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام پرفخر ہے۔
صیہونی ریاست کا نسل پرستانہ طرز عمل تو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں مگر کیا مغرب بالخصوص صیہونی ریاست کا اصل خالق برطانیہ بھی اسرائیل کی طرح نسل پرست ہے۔ فلسطینی قوم کی تہذیب وتمدن، ثقافت رواج کو تباہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کو نہتا کرنے میں برطانوی حکومت آج بھی پیش پیش ہے۔ کیا وہ صیہونی لیڈر ’ماکس نورڈو‘ کے اس نسل پرستانہ فلسفے پرعمل پیرا ہے جس میں موصوف نے کہا تھا کہ ’فلسطین قوم کے بغیر وطن اور وطن سے محروم یہودیوں کا ملک ہے‘۔
برطانوی نسل پرستی
فلسطینی تجزیہ نگار اور الخلیل یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اسعد العویوی نے کہا کہ برطانیہ کا قصور صرف یہ ہی نہیں کہ اس نے اعلان بالفور کے ذریعے فلسطین میں صیہونیوں کو اپنا ملک بنانے کی راہ ہموار کی بلکہ برطانیہ ہی وہ ملک ہے جس نے صیہونی ریاست کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں اس کی مدد کی۔ زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں برطانیہ نے صیہونی ریاست کی آج تک مدد اور معاونت نہ کی ہو۔
ڈاکٹر العویوی کا کہنا ہے کہ اگرچہ اعلان بالفور کی ایک شق میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو ضرر پہنچائے بغیر صیہونی ریاست قائم کی جائے گی۔ جب یہ اعلان جاری کیا گیا اس وقت ارض فلسطین پر92 فی صد فلسطینی مسلمان آباد تھے۔ یہ اعدادو شمار کسی اور کے نہیں بلکہ خود برطانیہ کے ہیں۔
اعلان بالفور میں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق تسلیم کرنے کے علی الرغم برطانوی سامراج کا کینہ اور فلسطینیوں کے خلاف صیہونی نسل پرستی کی حمایت بہ ذات خود ایک نسل پرستی ہے۔ برطانوی حکومت نے فلسطینیوں پر جبر واستبداد کے ذریعے صہیونی ریاست کے قیام کی ہمیشہ حمایت کی۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے ملک سے نکال دیا گیا۔ ان کی زمینوں اور املاک پر قبضہ کیا گیا، ہزار ہا شہریوں کو تہہ تیغ کیا گیا اور سیکڑوں دیہات کوصفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا، ایک سو سال گذرنے کے بعد آج بھی فلسطینی اپنے ملک میں غریب الوطن ہیں اور صیہونی ریاست کی توسیع پسندی کا کینسر تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے مگر برطانیہÂ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی جرائم پر مسلسل خاموش تماشائی ہے۔
ڈاکٹر العویوی کا کہنا ہے کہ برطانیہ فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام پر کبھی معافی نہیں مانگے گا کیونکہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں برطانوی مفادات کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ فلسطین میں صیہونی ریاست کےÂ قیام کے لیے 22 جولائی 1922ء کو ’لیگ آف نیشنز‘ نے مہرتصدیق ثبت کرنے کے لیے ایک نام نہاد قرار داد منظور کی۔ برطانیہ نے اس قرارداد کی منظوری میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد صہیونی ریاست کو فوجی، سیاسی اور دیگر اداروں کی بنیاد رکھنے میں اس کی بھرپور مدد کی۔ شروع دن سے برطانیہ کی فلسطینیوں کے ساتھ کینہ پروری واضح دکھائی دیتی تھی۔ اگر برطانیہ فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام میں صیہونیوں کی مدد کررہا ہے تو وہ فلسطینیوں کو اپنی فلسطینی ریاست کے قیام میں مدد کیوں نہیں کرسکا؟۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ اسرائیل کے پہلو میں ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کو اپنے نسل پرستانہ مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔
صیہونی دباؤ
فلسطینی تجزیہ نگار برطانوی ثقافتی مرکز ’برٹش کونسل‘ کے سابق چیئرمین محمد التمیمی نے کہا کہ برطانیہ صیہونی لابی کے زیراثر ہےÂ کیونکہ برطانیہ کے سیاسی اداروں سمیت ملک کے کلیدی عہدوں پر صیہونی تعینات ہیں۔ یہ صیہونی دراصل برطانیہ کی خارجہ پالیسی بالخصوص فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ برطانوی پارلیمنٹ، دارالعوام سمیت اہم سیاسی عہدوں اور محکمہ خارجہ کے کلیدی مناصب پر صیہونی تعینات رہے ہیں۔ یہ سب مل کر نہ صرف برطانیہ بلکہ سلامتی کونسل میں بھی برطانیہ کی فلسطین اور اسرائیل پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
عرب اور مسلم امہ کی خاموشی
اعلان بالفور سے وابستہ دیگر اہم امور میں فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی برادری کی مجرمانہ غفلت بھی اہم ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار، سیاست دان اور فلسطینی رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر حسن خریشہ کا کہنا ہے کہ برطانیہ پر دباؤ ڈالنے میں عرب ممالک بھی بری طرح ناکام رہے ہیں۔ عرب ممالک، عالم اسلام اور عالمی بردری نے فلسطینیوں کو ان کے سلب شدہ حقوق دلانے کے لیے فلسطینی قوم کے جذبات اور امنگوں کے مطابق کبھی برطانیہ پر دباؤ نہیں ڈالا۔ ایک طرف اگر برطانیہ عالمی اور برطانوی صیہونی لابی کے دباؤ کے زیراثر رہی ہے تو دوسری جانب فلسطینیوں کے آئینی اور قانونی حقوق کے لیے عرب ممالک کی خاموشی بھی محرومی کی ایک اہم وجہ ہے۔
ڈاکٹر خریشہ نے کہا کہ ’اعلاب بالفور‘ کی ایک صدی مکمل ہونا نہ صرف برطانیہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے بلکہ یہ عرب ممالک، مسلم دنیا اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ عرب اور مسلم دنیا کی مجرمانہ خاموشی نے برطانیہ کو ہمیشہ صیہونی ریاست کی طرف داری کا موقع فراہم کیا۔ عالمی برادری کی خاموشی سے برطانیہ نے امریکا کے ساتھ مل کر سیکیورٹی کونسل کی کئی قراردادوں کو ویٹو کیا۔ اگر عرب ممالک برطانیہ پر سفارتی دباؤ ڈالتے تو شاید فلسطینی قوم کے بارے میں برطانوی پالیسی وہ نہ ہوتی جو آج موجود ہے۔