مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) حال ہی میں ایک اسرائیلی صحافی نے اسرائیلی خفیہ ادارے’موساد‘ شن بیٹ اور ملٹری انٹیلی جنس کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں کی تفصیلات پر مشتمل ایک لرزہ خیز کتاب شائع کی ہے۔ اس کتاب میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ’موساد‘ نے سابق فلسطینی لیڈر یاسر عرفات مرحوم کو سات بار قتل کرنے کی اسکیمیں تیار کیں۔
اسرائیلی صحافی کی نئی شائع ہونے والی کتاب کی تفصیلات امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے بھی شائع کی ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کے سابق صحافی رونین برگ مین نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ یاسرعرفات کوسات بار قتل کرنے کی کوشش کی گئی مگربعض سازشیں ناکام ہوئیں اور بعض پر تکنیکی وجوہات کی بناء پر عمل درآمد نہ کیا جاسکا۔رپورٹ میں امریکی، عرب اور اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے یاسرعرفات کو قتل کرنے کی ’موساد‘ کی سازشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان سازشوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
جرمنی کی کارروائی
برگ مین لکھتا ہے کہ یاسرعرفات کے قتل کی پہلی سازش تحریک فتح کے قیام کے چھ سال کے بعد تیار کی گئی۔ اس وقت عرفات جرمنی میں تھے۔ موساد نے اپنی بیرون ملک یونٹ ’قیساریہ‘ کے ایجنٹوں کو ہدایت کی کہ وہ فرانکفرٹ شہر جائیں جہاں یاسرعرفات کا دفترہے۔ وہ اس دفتر میں گھس کر یاسرعرفات کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ اسرائیلی ریاست تحریک فتح کی مزاحمتی کارروائیوں کی بناء پر ان کے تعاقب میں تھی اور انہیں صورت میں جان سے مارنا یا پکڑنا تھا۔
سابق اسرائیلی وزیر رافی ایٹن کا کہنا ہے کہ فرانکفرٹ میں یاسرعرفات کو آسانی کے ساتھ قتل کیا جاسکتا تھا مگر اس وقت کے موساد کے چیف میر عمیت نے اس کی حمایت نہیں کی۔
سنہ 1967ء کے بعد یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطین میں انقلابی تحریک شروع ہوئی تو اسرائیلی فوج نے ان کے دفتر پر دھاوا بولا۔ انہیں گرفتار کرنا تا مگر وہ چھاپے سے محض چند منٹ قبل وہاں سے نکل چکے تھے۔ ان کی اس وقت نکلنے کی تصدیق ان کے میز پر رکھے کھانے سے ہوئی جو ابھی تک گرم تھا۔
فلسطینی قیدی کی برین واشنگ
یاسرعرفات کے قتل کی دوسری کوشش ایک فلسطینی قیدی کو برین واش کرکے کی گئی۔ یہ سازش سنہ 1968ء میں کی گئی۔ اسرائیلی جیل میں قیدÂ ایک فلسطینی کو تین ماہ تک مسلسل برین واش کیا گیا۔ اسے موساد کے ایک ایجنٹ کے طور پر کام کرنے پر راضی کرنے کے بعد اسے یاسرعرفات کو قتل کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔ فلسطینی قیدی نے رہائی کے پانچ گھنٹے بعد ہی انکشاف کیا کہ اسے یاسرعرفات کے قتل پر مامور کیا گیا ہے۔ اس نے اپنی پستول بھی فلسطینی قیادت کےحوالے کردی۔ یوں برین واشنگ کی اسرائیلی سازش بھی بری طرح کام رہی۔
سنہ 1979ء میں اس وقت کے اسرائیلی آرمی چیف رفائیل ایٹن نے شمالی ریجن کے ملٹری کمانڈر آوی گیڈور بن گال کو ہدایت کی کہ وہ تنظیم آزادی فلسطین کی صف اوّل کی پوری قیات کو قتل کردے۔ اس کے بعد میرڈاگان کو موساد کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا اور لبنان میں موجود فلسطینی قیادت کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔
کھیل کے میدان میں پوری فلسطینی قیادت نشانے پر
سنہ 1981ء میں ارئیل شیرون اسرائیل کا وزیر دفاع مقرر ہوا اور اس نے یاسرعرفات کو اپنا شکار قراردیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق شیرون نے بن گال اور ڈاگان کو ٹاسک سونپا کہ وہ بیروت میں ہونے والی اولمپک کھیلوں کے دوران گراؤنڈ میں اہم شخصیات کی کرسیوں کے نیچے بم فٹ کریں۔ اس طرح جب فلسطینی قیادت میچ دیکھنے کے لیے ان کرسیوں پر بیٹھے تو انہیں دھماکوں سے اڑا دیا جائے۔ یہ کارروائی جنوری 1982ء کو انجام دی جانی تھی۔
اسرائیلی صحافی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بیروت میں اولمپک کھیلوں کے دوران گراؤنڈ کی کرسیوں کے نیچے بم فٹ کردیے گئے۔ اس کے علاوہ بارود سے بھری تین گاڑیاںÂ بھی تیار کی گئیں اورانہیں گراؤنڈ کے قریب کھڑا کردیا گیا۔ انہیں اس وقت دھماکے سے اڑایا جانا تھا جب گراؤنڈ میں بچ جانے والے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرتے۔ تاہم اس کارروائی کے نتائج کے حوالے سے خائف بعض انٹیلی جنس افسران نے اس وقت کے وزیراعظم مناحیم بیگن سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کارروائی پرعمل درآمد روکنے کا حکم جاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پورے گراؤنڈ کو تباہ نہیں کرسکتے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو پوری دنیا ہمارے پیچھے پڑ جائے گی۔ اس کے بعد بیگن کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے کارروائی منسوخ کرنے کا حکم دیا۔
فضاء سے حملہ
جون 1982ء کی جنگ کے دوران اسرائیلی خفیہ ادارے ’موساد‘ نے ’ داگ ملو۔ سمک مالح‘ کے نام سے ایک یونٹ تشکیل دی اور اسے یاسرعرفات کو قتل کرنے کا ٹاسک سونپا۔
اس یونٹ میں ڈاگان اور رافی ایٹن بھی شامل تھے اور اس کی قیادت سابق آرمی چیف عوزی ڈیان کو سونپی گئی تھی۔ یہ ٹیم یاسرعرفات کی نقل حرکت پر مسلسل نظر رکھنا شروع کردی اور فیصلہ کیا گیا کہ مناسب موقع ملتے ہی انہیں فضائی حملے میں ختم کردیا جائے گا۔ صیہونی یاسر عرفات کی معمول کی نقل وحرکت کو دیکھ رہے، ایک روز انہوں نے یاسرعرفات کو فضائی حملے میں نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان پر فضائی حملہ کیا گیا مگر وہ وقت سے پہلے وہاں سے جا چکے تھے۔
تین جون 1982ء کو ایک صحافی اوری افنیری یاسر عرفات سے انٹرویو کے لیے بیروت گیا۔ اسرائیلی خفیہ ادارے کی قائم کردہ یونٹ نے تین دیگرایجںٹوں کو بھی صحافیوں کے روپ میں یاسرعرفات کے پاس بھیجنے کا پلان بنایا۔ تاہم ٹیم میں شامل ارکان کے درمیان اس کارروائی پر اختلاف پیدا ہوگیا۔ بعض ارکان نے کہا کہ ایسی کارروائی کے نتیجے میں اسرائیلیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
اس کے دو ماہ کے بعد اسرائیل کے ایک فانٹوم جنگی طیارے نے بیروت میں یاسرعرفات کی مبینہ رہائش گاہ پر بم گرایا مگر وہ کارروائی کے بعد وہاں پہنچے تھے۔
طیارہ مار گرانے کا فیصلہ
’چڑھو اور فورا مار ڈالو‘ کے عنوان سے شائع کی گئی کتاب میں یاسرعرفات کے طیارے کو فضا میں تباہ کرنے اسرائیلی منصوبے کی پس پردہ کہانی کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔
سنہ 1982ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع ارئیل شیرون نے یاسر عرفات کے سول جہاز کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا انہوں نے فضائیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ بیرون ملک موجود یاسرعرفات پرنظر رکھیں۔ یاسرعرفات کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کی ذمہ داری’موساد‘ کے ایجنٹوں کو سونپی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ جس ہوائی جہاز میں یاسرعرفات سوارہوں اسے مار گرایا جائے تاکہ عرفاتÂ سے گلو خلاصی اختیار کی جاسکے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ فضائیہ کے سربراہ ارئیل شیرون کے سخت احکامات کے باجود کسی سول ہوائی جہاز کو گرانے کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ جن جنگی پائلٹوں کو یاسرعرفات کے طیارے کو مار گرانے کا ٹاسک دیا گیا تھا فضائیہ کے سربراہ نے انہیں کہا تھا کہ اس وقت تک جہاز پر فائرنگ نہ کریں جب تک وہ خود انہیں فون نہ کریں۔ کسی اور طرف سے غلطی سے آنے والے ٹیلیفون پر بھی عمل نہ کیا جائے۔
اس منصوبے کی تیاری کے بعد بیرون ملک ’موساد‘ کے دو ایجنٹوں نے اطلاع دی کہ یاسرعرفات یونان کے شہر ایتھنز سے قاہرہ روانہ ہونے والے ہیں۔ تاہم اسرائیلی فوج اور فضائیہ کو شبہ تھا کہ آیا واقعی طیارے میں سوار ہونے والوں میں یاسرعرفات بھی شامل ہیں۔
امریکی اخبار’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی اس اسٹوری کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ بالکل آخری وقت میں مشکوک ہونے کی بناء پر ایتھنز سے قاہرہ آنے والی پرواز کو نشانہ بنانے کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود ارئیل شیرون اور آرمی چیف اس معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کرنے کے لیے فضائیہ کے سربراہ پر دباؤ ڈال رہے تھے۔
جنرل عیفری نے ایف پندرہ طیارے کے پائلٹوں کو بتایا کہ وہ ایتھنز سے قاہرہ آنے والی اس پرواز کی نگرانی کریں مگر جب تک انہیں میری طرف سے احکامات نہ ملیں وہ فائر نہ کھولیں۔
23 اکتوبر دن 2 بج کر 5 منٹ پر موساد کے ایجنٹوں نے تل ابیب کو ایک مراسلہ بھیجا جس میں کہا گیا کہ ایھتنز کے ہوائی اڈے سے قاہرہ آنے والی ایک پرواز میں یاسرعرفات بھی آرہے ہیں۔
فضائیہ کے سربراہ نے اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس سے بھی اس خبر کی تصدیق کرائی مگر فضائیہ کے سربراہ اس وقت بھی تذبذب میں تھے۔
موساد کے ایجنٹوں نے دوسرا مراسلہ بھیجا کہ یاسرعرفات والی پرواز مقامی وقت کے مطابق 4:30 پر ٹیک آف کرے گی۔ جنرل عیفری نے بھی دو جنگی طیاروں کو اڑان بھرنے کا حکم دیا تاہم انہیں ایک بار پھر تاکید کہ وہ فائر کرنے کے لیے ان کی ہدایات کا انتظار کریں، کسی اور کی طرف سے کوئی رابطہ کیا جائے تو اس پرعمل درآمد نہ کریں۔
آرمی چیف نے جنرل عیفری سے پوچھا کی پلان کہاں تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس حتمی تصدیق نہیں کہ آیا اس ہوائی جہاز میں یاسرعرفات بھی سوار ہیں۔
اس دوران ’ایف 15‘ طیارے ایتھنز کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔ اس دوران اچانک یہ اطلاعات آئیں کہ مذکورہ ہوائی جہاز میں سوار ہونے والے یاسرعرفات نہیں بلکہ ان کے بھائی فتحی عرفات ہیں۔
جنگی طیاروں کے پائلٹ آدھا گھنٹہ فضاء میں رہے مگر فضائیہ کےسربراہ نے انہیں طیارے کو مار گرانے کا حکم نہیں دیا۔
اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس اور موساد کے ایجنٹوں نے آدھے گھنٹے کے بعد بتایا کہ طیارے پر یاسرعرفات کے بھائی فتحی عرفات سوارÂ ہیں۔ فتحی عرفات بچوں کے ڈاکٹر تھے اور ان کا پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے لیے قاہرہ آنا جانا لگا رہتا تھا۔
اسرائیلی مصنف کا کہنا ہے کہ موساد اور ملٹری انٹیلی جنس کی معلومات ناقص تھیں۔ طیاے میں یاسرعرفات ہی سوار تھے۔ وہ صبرا شاتیلا پناہ گزین کیمپ میں شیرون کی زیرنگرانی ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں زخمی ہونے والےÂ 30 بچوں کو لے کر علاج کے لیے قاہرہ روانہ ہوئے تھے۔ جب وہ قاہرہ پہنچے تو صیہونیوں کو ان کا طیارہ نہ مار گرانے پر بہت دکھ ہوا۔