ان میں سے چار کتابیں زیادہ مشہور ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی ضخیم کتب نہیں تاہم ان میں بیان کردہ من گھڑت کہانیاں صیہونی ریاست کو دنیا بھر میں خوش نما بنا کر پیش کرنے کے لیے موثر سمجھی جاتی ہیں۔
حال ہی میں اسرائیل کی خاتون نائب وزیرخارجہ ’زیپی حوٹوفیلی‘ امریکا کے دورے پر روانہ ہوئیں تو وہ چار کتابیں ان کے رخت سفر کا حصہ بنیں۔
حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ سے تعلق رکھنے والی نائب وزیرخارجہ نے کولمبیا، نیویارک اور نیوجرسی ریاست میں قائم پرنسٹن یونویرسٹی سے خطاب کرنا تھا۔ ان مواقع پر انہوں نے صیہونی ریاست کے پروپیگنڈہ ٹولز قرار دی جانے والی کتب کا تعارف کرانا اپنے امریکی دورے کے دوران اہم مشن سمجھا ہے۔
مسز حوٹوفیلی کو اپنے ساتھ امریکا کے سفر کے دوران کسی اسلحے اور ہتھیار کی کوئی ضرورت نہیں۔ امریکی دانشور نوم چومسکی کا ایک جملہ مشہور ہے کہ ’جمہوری نظام کے لیے پروپیگنڈہ اجتماعی نظام کے لیے کھلونا اور مذاق ہے‘۔
ان چاروں کتابوں میں کیا ہے؟
صیہونی ریاست کے پروپیگنڈہ ٹولز شمار کی جانے والے چار کتابچوں میں پہلے کا عنوان ’امن کے حصول کی مساعی‘ ہے۔
اس کتاب میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جارحیت اور لڑائی کا آغاز عربوں (فلطسینیوں) کی طرف سے کیا گیا۔ جنگÂ عربوں کی طرف سے اسرائیل پر مسلط کی گئی۔
تاہم کتاب میں کہیں بھی فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام، جبری گھر بدری بالخصوص کفر قاسم میں قتل عام، مصر پر تین جنگوں، صبرا وشاتیلا کیمپ میں قیامت برپا کرنے، لبنان پر قبضے اور دیگر ان گنت مظالم کا کوئی ذکر نہیں۔
اس نام نہاد امن کی علم بردار کتاب میں فلسطینیوں اور عربوں پر مظالم کے تذکرے کو گول کرتے ہوئے مصر اور اسرائیل کے درمیان طے پائے کیمپ ڈیوڈ معاہدے، انور سادات اور سابق اسرائیلی اعظم مناحیم بیگن امریکی صدر جمی کارٹر کے درمیان سنہ 1978ء میں ہونے والی ملاقات کا ذکر ہے اور اس واقعے کو اسرائیل کی امن پسندی کے معنوں میں لیاجاتا ہے۔
حوٹوفیلی نے دنیا میں صیہونی ریاست کی نام نہاد امن پسندی کا تذکرہ تو خوب کیا مگر امریکیوں کو یہ نہ بتا سکیں کہ آیا اسرائیل سنہ 1967ء کی سرحدوں پر واپسی سے کیوں انکاری ہے۔ اس کے امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کڑی شرائط کیوں عاید کر رکھی ہیں۔ اسرائیل فلسطینی ریاست کو کیوں تسلیم نہیں کرتا۔ تنظیم آزادی فلسطین کے ساتھ رابطہ کیوں نہیں کررہا مگر اس کا سارا زور بیان اس بات پرمرکوز ہے کہ انور سادات نے سنہ 1977ء میں بن گوریون ہوائی اڈے پر کیوں قدم رکھے تھے۔
’اسرائیلی عجوبہ‘
اسرائیلی نائب وزیرخارجہ کے دورہ امریکا کے دوران ان کے سامان میں شامل پروپیگنڈہ بک’ اسرائیلی عجوبہ‘ کہلاتی ہے۔ اس کتاب میں یہودیوں کے لیے ایک ایسی ریاست کا تصور ہے جو یہودیوں کا خواب ہے۔ اس کتاب میں صیہونی ریاست کی جمہوریت کو یہودیوں کے خوابوں کی تعبیر قرار دیا گیا ہے۔
کتاب میں شامل ایک اقتباس کے الفاظ کا مفہوم کچھ یوں ہے’آج کے دن اسرائیل ایک خوش حال اور ترقی یافتہ جمہوری ملک ہے، جو رواداری اور برداشت کے اصولوں پر چل رہا ہے۔ اسرائیل کئی ثقافتوں اور تہذیبوں کا مرکز ہے۔ اس کی متنوع ثقافت دنیا میں اس کی ترقی کی روح ہے‘۔
اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے صیہونی نائب وزیرخارجہ نے مغربی بالخصوص امریکی نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ جھوٹ راسخ کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل دور حاضر کا ایک جمہوری ملک ہے، جوبرداشت اور رواداری کے اصولوں پر قائم ہے اور اس کی ثقافت مسلسل نشو نما پا رہی ہے۔
جہاں تک اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے کا معاملہ ہے تو اس دعوے کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو اسرائیل کے اندر ہونے والے انتخابات اور ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں ہیں۔ اس دوعوے کا یہ پہلو کسی حد تک درست ہے کیونکہ اسرائیل میں انتخابات جمہوری انداز میں ہوتے ہیں اور حکومت کا قیام جمہوری طریقے سے عمل میں آتا ہے۔ مگر اس کا دوسرا پہلو انتہائی تاریک اور گھناؤنا ہے۔ وہ عربوں اور فلسطینیوں کے ساتھ صیہونی ریاست کا برتاؤ ہے۔ صیہونی ریاست جمہوریت کی دعوے دار ہونے کے باوجود عربوں کے تشخص کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حتیٰ کہ فلسطین سے اس کےا صل باشندوں کو فوجی طاقت کے ذریعے آج بھی دیس نکالا دیا جا رہا ہے۔
نام نہاد جمہوری ریاست کے دعوؤں پر مبنی کتاب میں کہیں بھی گذرگاہوں پر فلسطینیوں کی لمبی لمبی قطاروں، ان کے ساتھ اسرائیلی فوج کے شرمناک سلوک، غزہ کی پٹی کے عوام پر عائد پابندیوں، غزہ پر مسلط کی گئی جنگوں میں بے گناہ شہریوں کی شہادتوں حتیٰ کہ اسرائیلی معاشرے کے اندر فلسطینیوں اور عربوں کے ساتھ برتے جانے والے نسل پرستانہ سلوک کا کوئی بیان نہیں۔
حوٹوفیلی نے امریکا میں اپنی تقاریر میں فلسطین میں عبرانی ریاست کے آئینی جواز کے حولے سے سیاسی اور نظریاتی دلائل دینے کی بھونڈی کوشش کی۔ انہوں نے عیسائی نوجوانوں کے جذبات سے بھی ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی اور تورات سے ان اقتباسات کا تذکرہ کیا جن میں اسرائیل کو ’ جاری ارض معجزہ‘ قرار دیا اور کہا کہ خدا نے ابراہیم کی اولاد سے ارض صہیون کی طرف واپس آنے کا وعدہ کیا تھا۔
صیہونی بستیاں
تیسرا کتابہ جو صیہونی ریاست کی طرف سے اپنی حمایت میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے’ صیہونی کالونیاں‘ کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ اس نام نہاد کتابچے میں فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کی تعریف توصیف کی گئی ہے۔
کتاب میں بیان کردہ من گھڑت قصوں میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ چونکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقوں یہودا اورسامرہ کی اولاد رہ چکی ہے۔ اس لیے فلسطینیوں کا ان علاقوں پر قبضہ غیرقانونی اور استعماری ہے۔ گویا وہ مسئلے کے اصل نظریے، ارض فلسطین کی تاریخ، قانونی حالات اور فلسطین کی تاریخی آبادیاتی اور جغرافیائی حیثیت سے نا بلد ہیں۔
’دہشت گردی کی صدی‘
چوتھا کتابچہ ’دہشت گردی کی صدی‘ کے عنوان سے مشہور ہے۔ اس میں صیہونی ریاست کو مظلوم قرار دینے کے ساتھ آس پاس کے ملکوں کو سازشی اور ظالم قرار دیا ہے۔
صیہونی ریاست کا یہی وہ بیانیہ ہے جو تاریخ کے سیاق وسباق سے ہٹ کرہے۔ اس کتاب میں شامل موضوعات کو ان کے سیاق وسباق سے ہٹا کر بیان کرنے کے ساتھ حقائق کو اس گھناؤنے انداز میں مسخ کیا گیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ مثلا فلسطین کے سابق مفتی اعظم اور فلسطینی قوم کے روحانی پیشوا مفتی امین الحسینی کو ہٹلر کے ساتھ بیٹھے دکھایا گیا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا یہ تصویر کب لی گئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلسطین کے بعض حصوں پر برطانیہ اور بعض پر فرانس قابض تھا لیکن جرمنی کا اس پر کوئی کردار نہیں تھا۔
تین امریکی جامعات میں صیہونی نائب وزیرخارجہ نے اپنی نام نہاد تقاریر کے دوران فلسطینیوں کی تحریک آزادی کو اسرائیل کو محصور کرنے کے ہم معنی قرار دیا۔ عالمی سطح پر اسرائیلی بائیکاٹ کی تحریک ، اسرائیل سے سرمایہ کاری نکالنے اور ’بی ڈی ایس‘ نامی تحریک کو آگے بڑھانے کو صہیونی ریاست کے محاصرے کے طور پرتعبیر کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک در حقیقت اسرائیل کا معاشی محاصرہ کرنے کی سازش ہے۔