غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے انکشاف کیا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی یاداشتوں میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2014ء کو غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی اسرائیلی جنگ کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) سے غیرمعمولی طور پر خوف زدہ تھے۔
جون کیری کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب آج چار ستمبر کو منظرعام پر آ رہی ہے۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ سنہ 2014ء کی جنگ کے دوران ان کی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ غزہ کی پٹی سے فلسطینی مزاحمت کار راکٹ حملے کررہے تھے اور ان حملوں کے خطرے کے پیش نظر اسرائیل کے لیے پروازیں روک دی گئی تھیں۔جان کیری کا کہنا ہے کہ میں نے پہلی بار بنجمن نیتن یاھو کو اتنا خوف زدہ اور پریشان حال دیکھا۔ وہ حالات سے خوف زدہ تھے۔ میں نے سوچا کہ آج تک میں نے نیتن یاھو کو اتنا کمزور دل، شکستہ، خوف زدہ اور پریشان حال نہیں دیکھا، میرے لیے وہ منظر حیران کن تھا کیونکہ اسرائیلی لیڈر اس وقت حماس کے راکٹوں کے حصار میں تھے۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق امریکی وزیرخارجہ نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کا خفیہ مسودہ اسرائیل نے تیار کیا تھا مگر اپنی بدنامی سے بچنے کے لیے یہ مشہور کیا گیا کہ جنگ بندی میں پہل حماس نے کی ہے اور اسرائیل نے حماس کے مطالبات مسترد کردیے ہیں۔
کامیابی کے حقائق
فلسطینی تجزیہ نگار ایمن الرفاتی کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں مسلط کی گئی جنگ کو چار سال گذر چکے ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ جان کیری کی یاداشتوں میں نیتن یاھو کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ حقائق پر مبنی ہے کیونکہ اس جنگ میں صیہونی فوج طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملے طاقت ور اور درد ناک تھے اور ان حملوں نے اسرائیلی فوج، انٹیلی جنس اداروں اور سیاست دانوں سب کو چونکا دیا تھا۔ فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کے باعث اسرائیل کی فضائی حدود بند تھیں اور نیتن یاھو اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی ’باعزت‘ راستے کی تلاش میں تھے۔
ایمن الرفاتی کا کہنا تھا کہ جان کیری کی یاداشتیں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب نیتن یاھو اس وقت بھی وزیراعظم ہیں۔ جان کیری نے نیتن یاھو کی گیدڑ بھبکیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے انہیں اسرائیلیوں کے سامنے ننگا کردیا ہے۔ کیری کی باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نیتن یاھو فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو کچلنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے پاس فلسطینی مزاحمت کے خلاف کوئی ویژن نہیں۔
مزاحمتی سرپرائز
سنہ 2014ء کی جنگ میں صیہونی ریاست کی طرف سے غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کا کھلے عام ارتکاب کیا گیا۔ دوسری جانب فلسطینی مزاحمت کاروں نے بھی صیہونی دشمن کے سامنے اپنی طاقت کا لواہا منوایا۔
فلسطینی تجزیہ نگار عماد ابوعواد نے کہا کہ جان کیری نے نہ صرف نیتن یاھو بلکہ پورے صیہونی نظام حکومت کے قلق اور پریشانی کو واضح کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جان کیری کا بیان فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی بھرپور حکمت عملی کا اعتراف ہے۔
انہوں نے کہا کہ نتین یاھو کو جنگ میں شکست فاش کا خطرہ تھا۔ سنہ 2008ء میں وہ اسرائیل کے دفاع اور سلامتی کے نعرے کے ساتھ انتخابات میں اترے مگر سنہ 2014ء کو غزہ پر جنگ مسلط کی گئی تو حالات بدل چکے تھے۔
ابوعواد کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج اور بڑے بڑے صیہونی سیکیورٹی ادارے مایوسی، شکست خوردگی اور الجھن کا شکار تھے۔
انہوں نے کہا کہ جان کیری نے اشارہ دیا ہے کہ نیتن یاھو اور صیہونی ریاست فلسطینی مزاحمتی قوتوں سے خوف زدہ ہے۔ اسرائیل آج بھی خوف کا شکار ہے کہ سنہ 2014ء کی جنگ کی کیفیت دوبارہ پیدا ہوسکتی ہے۔