فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق غزہ کی پٹی میں گردوں کے مرض کا شکار ننھیÂ ھالہ کو ہر دوسرے یا تیسرے روز ’رکرومن‘ انجکشن کی ضرورت ہوتی ہے، مگر صدر محمود عباس کی عائد کردہ ناروا پابندیوں کے باعث اسے کئی ماہ سے یہ انجکشن نہیں مل پایا۔ وہ بجا طور پر استفسار کرتی ہے کہ اس کا کیا جرم جس کی پاداش میں صدر عباس اس کی جان کی درپے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ھالہ غزہ کی پٹی میں طبی مسائل کے شکار شہریوں اور وہاں پر جاری بحران کی زندہ علامت ہیں۔ وہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے اسپتال میں داخل ہیں۔ اس کی جسمانی تکلیف اور اس کے والدین کی ذہنی پریشانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
مصیبت کے 20 گھنٹے
12 سالہ ھالہ الحوش کے گردے ناکارہ ہوچکے ہیں اور وہ ہفتے میں 20 گھنٹے وینٹی لیٹر پر رہتی ہے۔ اسے غزہ میں الرنتیسی اسپتال میں رکھا گیا ہے جہاں اسپتال میں دیگر مسائل کے ساتھ اسے ‘رکرومن‘ انجکشن بھی دستیاب نہیں۔
اسے صبح سات بجے سے دن دو بجے تک اسپتال میں بغیر کسی دوائی کے رکھا جاتا رہا ہے۔ اس دوران شدت تکلیف سےاس کی چیخی سنائی دیتی ہیں مگر فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کو ننھی ھالہ کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ بہت تکلیف، تھکاوٹ اور کمزوری محسوس کرتی ہے۔ اس کے لیے بیٹھنا بھی ممکن نہیں رہتا۔
اس نے بتایا کہ ایک ماہ سے وہ بار بار فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس سے مطالبہ کرتی آ رہی ہے کہ اسے رام اللہ سے رکرومن انجکنشن فراہم کرنے کی اجازت فراہم کی جائے مگر ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔
بلڈ یونٹس
ھالہ کے والد 35 سالہ رامز کا کہنا ہے کہ بچی گردوں کی صفائی کے دوران اسے بلڈ یونٹ کی طرف سے خون فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ بچی کا خون پوائنٹ چھ تک کم ہوجاتا ہے جس پر اسے خون لگوانا پڑتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مصیبت کا شکار والد نے کہا کہ آئندہ ماہ وہ بچی کے نئے گردوں کی پیوند کاری کی تیاری کررہے ہیں۔ اس دوران اسے مسلسل خون لگائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی گردوں کے ٹرانسپلانٹ کے عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
بیٹی کی مسلسل بیماری اور تکلیف پر والد بہت رنجیدہ اور تھکا ہوا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارے پر رکرومن انجکشن کا کوئی متبادل نہیں۔ وہ بہت مہنگی دوائی ہے مگر اس کے باوجود ہمیں دستیاب نہیں۔
غزہ میں طبی ذرائع نے بتایا کہ 25 مارچ کے بعد غرب اردن سے غزہ کی پٹی کو رکرومن انجکشن سمیت کئی دوسری ادویات فراہم نہیں کی گئی ہیں جس کے باعث غزہ کے اسپتالوں زیرعلاج مریض، ان کے لواحقین اور اسپتال کا عملہ سب پریشان ہیں۔