فلسطینیوں پر فکری یلغارمسلط کرنےوالے غیرملکی اداروں میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے پناہ گزین’اونروا‘ بھی پیش پیش ہے۔ چونکہ یہ عالمی ادارہ فلسطین کے پناہ گزینوں کی معاشی، سماجی اور دیگر ضروریات کا ذمہ دار ہے اس لیے عالمی اوباش اس تنظیم کو فلسطین میں نئی فکری تبدیلی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
رپورٹ میں اس صہیونی۔ مغربی سازش کا پردہ چاک کیا ہے اور بتایا کہ ’اونروا‘ کی سطح پر اسکولوں میں ایسا نصاب مرتب کیا جا رہا ہے جسے اندرون فلسطین اور بیرون ملک قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کے بچوں کو پڑھایا جائے گا۔ نصاب تعلیم میں وہ جوہری تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں جو بہر صورت فلسطینی نوخیز نسل کو قضیہ فلسطین سے بے بہرہ اور لا علم رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ یوں نصاب تعلیم میں ترمیم کے ذریعے فلسطینی قوم پروہ جھوٹ مسلط کرنے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے جسے دنیا بھر میں اسرائیل Â اٹھائے پھرتا ہے۔ لگتا ہے کہ ’اونروا‘ کی فلسطینی اسکولوں میں نصاب کی تبدیلی کے پیچھے بھی صہیونی قوتوں کا ہاتھ کار فرما ہے جو فلسطینی طلباء وطالبات کو درست ٹریک سے ہٹا کرتاریخی حوالے سے گمراہ کرنا چاہتی ہیں۔ اس مجوزہ نصاب کو پڑھ کر فلسطینی قوم پر صہیونی ریاست کےناجائز تسلط، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظلم اور فلسطینی قوم کی تاریخ کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اس میں اسرائیلی ہرجرم سے مبریٰ اور فلسطین پر ان کے قبضے کو جائز تسلیم کرانے کی سعی لاحاصل کی گئی ہے۔
بہ ظاہر ’اونروا‘ نصاب میں جدت لانے کا دعویٰ کررہی ہے مگر اس نام نہاد جدت کے پیچھے فلسطینی قوم پر صہیونی نظریات مسلط کرنے کے سوا اور کوئی مذموم مقصد کار فرما نہیں ہوسکتا۔
فلسطین میں عوامی سطح پر ’اونروا‘ کے اس مبینہ نصاب تعلیم کے بارے میں بحث و مباحثہ جاری ہے۔ فلسطینیوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی نصاب کو قبول نہیں کریں گے جس میں فلسطینی قوم کی تاریخ اور قضیہ فلسطین پر گمراہی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہو۔ اگر فلسطینی اونروا کے اس مزعومہ نصاب کو قبول کرلیتے ہیں تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ غزہ اور مغربی کنارے کے 24 فی صد بچوں کو حقائق کے منافی نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔
خصوصی طباعت
اردن کے صدر مقام عمان میں قائم’اونرا‘ کے علاقائی دفتر سے غزہ کی پٹی میں تعلیمی اداروں کو اس مجوزہ نصاب پرکی کچھ تازہ کاپیاں ارسال کی گئی ہیں۔ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نصاب میں پہلے مرحلے میں تبدیلی پہلی سے چوتھی جماعت تک کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں یہ تبدیلی میٹرک تک ہوگی۔
’اونروا‘ کے ڈائریکٹر آپریشنز’بوچاک‘ کا دعویٰ ہے کہ وہ نصاب میں ایسی کوئی چیز شامل نہیں کررہے ہیں جو فلسطین کے حقائق کے منافی ہے۔ انہوں نے نصاب میں تبدیلی فلسطینی وزارت تعلیم سے مکمل طور پرصلاح مشورے Â کے مطابق لانے کی کوشش کی ہے۔ فلسطینی حکام کو یہ بتایا گیا ہے کہ نصاب میں کس نوعیت کی تبدیلی کی جا رہی ہے۔’اونروا‘ فلسطینی Â اسکولوں کے لیے وضع کردہ نصاب میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا جو’فلسطینی روایات‘ کے خلاف ہو۔ مگر دوسری طرف پہلی جماعت سے چوتھی جماعت تک کے نئے نصاب میں تبدیلی کے جاری عمل کے دوران بعض اہم معلومات سامنے آئی ہیں۔
ان معلومات کے مطابق نصاب تعلیم میں 50 اقسوام کی ترامیم کی گئی ہیں۔ نصاب میں عربی تعلیم، اسلامیات، ریاض، سوشل سائنس، سائنس، انگریزی اور دیگر مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین میں تین اہم ایشوز پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ وہ تین اہم نکات تشدد، جنس اور سیاسی معاملات شامل ہیں۔
نصاب میں ترامین کے دوران فلسطینی کاز، قوم کی تاریخ اور صہیونی ریاست کے مظالم کے حوالے سے کئی باتیں شامل کی گئی ہیں۔ فلسطینی قوم کے ان تاریخی ہیروز کو غائب کرنے کی دنستہ کوشش کی گئی ہے جن پر فلسطینی قوم آنے والے زمانوں میں بھی فخر کریں گے۔ نصاب تعلیم میں نصاب کی قومی اقدار، اس کے فلسفیانہ اصول ومبادی اور ان میں بھی سب سے اہم فلسطین کے نقشے میں تبدیلی، جگہوں کے ناموں کی تبدیلی شامل ہے۔ یہ تمام وہ Â پہلو ہیں جو اسرائیل فلسطینی نصاب میں لانا چاہتا ہے۔
نظریات تبدیل کرنے کی کوشش
حال ہی میں ’اونروا‘ کے اجلاس کے دوران پیش کئی مجوزہ ترامیم کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان میں غیر جانب داریت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
غیر جانب داریت کے حوالے سے 55 نئے مضامین شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جارحیت، مزاحمت کی مخالف، مردو خواتین اور دیگر غیرضروری بلکہ نقصان دہ مواد شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام کتب کے 3.3 فی صد پر فلسطین کے نقشے شائع کیے جائیں گے۔ اسی طرح فلسطینی شہروں کے تاریخی ناموں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، البتہ نصاب میں اسرائیل کی دیوار فاصل، اسرائیلی ٹینک اور مکانات کی مسماری کی تصاویر کو شامل کیا گیا ہے۔
نصاب میں تبدیلی کی صرف دو مثالیں کافی ہیں۔ مثلا فلسطین کی جگہ ’یقطین‘ کی ایک نئی اصطلاح گھڑی گئی ہے۔ بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے بجائے ’القدس دین ابراہیمی کے پیروکار مذاہب کا مشترکہ مقدس شہر‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دانستہ اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں تو اور کیا ہے۔
نصاب میں مرد و زن کے اختلاط کو عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عربی زبان کی ایک کتاب میں ایک مضمون کے ساتھ تصویر شائع کی گئی ہے جس میں ایک شادی کی تقریب میں مرد و خواتین کو ایک ساتھ ناچتے گاتے دکھایا گیا ہے۔
اشاراتی مفاہیم میں تبدیلی
فلسطینی نصاب تعلیم میں لائی جانے والی تبدیلی میں اشاروں کے ذریعے طلباء کو سمجھائے جانے والے مواد کو بھی بدلا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر فلسطینی قوم کے خلاف صہیونی فوج کے طاقت کے استعمال، دیوار فاصل، صہیونی آباد کاری، فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری، روزانہ قتل اور گرفتاری کے واقعات تصاویر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کے دوران ان کے لیے استعمال ہونے والی عبارات تبدیل کی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ اسرائیلی قید خانوں کے نام تک تبدیل کیے جا رہے ہیں۔
نصاب میں اسیران کی حمایت میں تقریبات کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اسیران کا تذکرہ بھی گول کیا جا رہا ہے۔ وادی اردن کو فلسطین کا حصہ ظاہر نہیں کیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطین کی تاریخی میراث پرجعل سازی کی لیپا پوتی کی گئی ہے۔
بہ ظاہر فلسطینی قوم میں امن پسندی کے جذبات راسخ کرنے کی آڑ میں فلسطینیوں کی نئی نسل کی برین واشنگ کی جا رہی ہے۔ انہیں فلسطین اور قضیہ فلسطین سے لاتعلق کرنے، مزاحمت کی نفی اور آزادی کے حصول کے لیے جدو جہد سے مںحرف کرنے کی مجرمانہ نوعیت کی تبدیلیاں شامل ہیں۔
حقائق مسخ کرنے کی مذموم کوشش
اونروا کے ہاں تیار ہونے والے نئے برائے نام نصاب میں فلسطینیوں کو صہیونیوں کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندگی گذارنے کا سبق تو دیا جا رہا ہے مگر نصاب میں یہ بات شامل نہیں کہ فلسطینی قوم پرصہیونی دہشت گردوں، مافیاؤں اور صہیونی فوج نے کیسے کیسے مظالم ڈھائے۔ جبرا گھروں اور شہروں سے اجتماعی بے دخلی کا کوئی مضمون شامل نہیں اور نصاب میں صہیونیوں کے سات خون معاف کرنے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ نصاب فلسطینی قوم کا نمائندہ نہیں بلکہ حقائق مسخ کرنے کی کوشش ہے جس کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
قوانین سے تجاوز
فلسطینی وزارت تعلیم نے ’اونروا‘ کی طرف سے فلسطینی اسکولوں کے لیے نصاب تعلیم میں تبدیلی کو مسترد کردیا ہے۔ وزارت تعلیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں نصاب میں تبدیلی کے حوالے سے جوباتیں سامنے آئیں اگر وہ مبنی برصداقت ہیں تو یہ کھلم کھلا عالمی قوانین سے انحراف ہے۔ ’اونروا‘ کو یہ حق کسی صورت میں نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا نصاب تعلیم فلسطینی قوم پر مسلط کرے۔ فلسطینی ماہرین تعلیم خود نصاب وضع کریں گے۔
بیان میں ’اونروا‘ سے کہا گیا ہے کہ وہ نصٓاب میں لائی جانے والی تبدیلیوں کے بارے میں فلسطینی حکام سے مشورہ کرے اور لائی گئی تبدیلیوں کے بارے میں فلسطینیوں کو آگاہ کیا جائے ورنہ اسے امدادی ادارے کی طرف سے فلسطینی قوم پر ثقافتی حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ’اونروا‘ کی طرف سے نصاب تعلیم میں تبدیلی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اونروا فلسطینی نصاب میں تبدیلی، اصطلاحات بدلنے کی کئی بار کوششیں کرچکا ہے۔ فلسطینی Â پناہ گزینوں کے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں ’ہولوکاسٹ‘ کی اصطلاح شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔