غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) بیماری اورتکلیف عموما انسان کو مایوسی سے دوچار کرتی ہے مگر ایک زندہ دل فلسطینی نے اپنی کینسر جیسی انتہائی خطرناک اور جان لیوا بیماری کے باوجود امید سے تعلق قائم رکھا ہے۔
سراپا امید اس فلسطینی کے حالات کے بارے میں ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔ غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے محمد الغریب کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر مقبول ہوئی ہے۔ الغریب اس کا ایک جملہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’ زندگی کے ساتھ مایوسی نہیں اور مایوسی کے ساتھ زندگی اک کوئی وجود نہیں‘۔غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے الغریب نے اپنے آہنی عزم اور مضبوط ارادے سے اپنے خواب اور امنگوں کو شرمندہ تعبیرکیا ہے۔ تمام تر مشکلات اور ناکہ بندی کی صعوبتوں کے علی الرغم الغریب نے امید سے زندگی جینے کا ہنر سیکھا ہے۔
انوکھا مرض
29 سالہ الغریب ایک انوکھے مرض کاشکار ہوگا۔ اسے بڑی آنت میں تکلیف ہے اور کئی سال سے وہ زیرعلاج ہے۔ اس دوران اس کے اب تک ہزاروں گولیاں کھائیں اور سیکڑوں انجیکشن لگوائے۔ اس نے 4000 گولیوں کے پتوں کو اور انجیکشن کو باہم ملا کر ایک خوبصورت فن پارہ تیار کیا ہے جس پرانتہائی خوبصورتی اور مہارت سے انگریزی زبان میں ’HOPE‘ یعنی ’امید‘ کا لفظ تحریر کیا ہے۔
محمد الغریب اگست 2016ء کو ایک انوکھی بیماری لاحق ہوئی جس کا نتیجہ کینسر کی شکل میں نمودار ہوا۔ الغریب کو شروع میں نظام انہضام میں شدید نوعیت کا انفیکشن ہوا۔
محمد الغریب نے سوشل میڈیا ویب سائیٹ ’فیس بک‘ پر ایک صفحہ تخلیق کیا ہے۔ اس میں اس نے لکھا ہے کہ خطرناک بیماری کے باوجود وہ امید کے ساتھ پیوستہ ہے۔ اس نے پوری جرات اور ہمت کے ساتھ بیماری کا مقابلہ کیا ہے۔ اس کے اس ارادے اور عزم نے دوستوں اور عزیزو اقارب کو بھی امید اور حوصلہ ملا ہے۔
محمد الغریب کا کہنا ہے کہ علاج کے شروع میں اس نے سخت نوعیت کی ادویات استعمال کرنا شروع کیں۔ وہ یومیہ 16 قسم کے علاج کرتا۔ تاہم اس نے مشکلات اور تکلیف کو مکمل طورپر مسترد کردیا۔
’امید انجیکشن‘ محمد الغریب کا تمام تر تکالیف اور دکھوں سے بے معنی کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرنے والی گولیوں کے پتوں کوÂ اور خالی انجیکشن کو جمع کرتا رہا۔ اس کا کہنا ہے کہ میری لغت میں ناممکن کا کوئی لفظ نہیں۔
محمد الغریب کا یہ فن پارہ تو اس کی امید سے وابستی کا زندہ ثبوت ہے مگر اس کی قائم کردہ تعلقات عامہ کمپنی ’NCG‘ اس کی امید سے وابستگی کا عملی ثبوت ہے۔
نوجوانوں کا نام
امید سے وابستہ شخص نوجوانوں کے لیے کیا پیغام دے سکتاہے؟ فلسطینی نوجوانوں کے نام اپنے پیغام میں محمد کا کہنا ہے کہ تمام تر مشکلات کےباوجود پیچھے کی طرف نہیں بلکہ ہمیں آگے کی طرف بڑھنا ہے۔ چیلنجز کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا اور پوری جرات کے ساتھ تمام تر مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوجوان کسی بھی کام کے لیے ایک ہدف مقرر کریں اور اس کے بعد اس ہدف کے حصول کے لیے اپنی تمام توانائی اور وسائل وقف کردیں۔
انہوں نے کہا کہ میری لغت میں ناممکن کا کوئی وجود نہیں۔ ہرمشکل کا کوئی نا کوئی حل ضرور ہوتا ہے۔ انسان کو اللہ کی رضا اور اس کی تقدیر سے راضی رہنا چاہیے۔
اس کا کہنا ہے کہ میری زندگی مشکلات سے بھرپور ہے مگراس کے باوجود میں نے امید سے دوستی قائم کر رکھی ہے۔
وہ اب تک 320 مختلف اقسام کی ادویات استعمال کرچکا ہے۔ اس کا کہنا ہے وہ گم نام اور اجنبی نہیں رہنا چاہتا۔ کیونکہ اس کی ڈکشنری میں ناممکن نام کی کوئی چیز نہیں۔