غزہ کی سرحد پراحتجاج کے لیے جمع ہونے والے فلسطینیوں کو صیہونی ریاست کی منظم دہشت گردی کا سامنا ہے۔ایسے میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنےکے لیے امدادی کارکن بھی وہاں موجود ہوتے ہیں۔
ان امدادی کارکنوں میں 4 سالہ مریم المغربی نامی ایک ننھی منھی فلسطینی کارکن بھی شامل ہیں۔ مشرقی البریج پناہ گزین کیمپ کے قریب خیمہ زن فلسطینی مظاہرین کے درمیان المغربی کو طبی عملے کے روایتی سفید لباس میںÂ بارہا دیکھا گیا۔
شاید قارئین یہ سوال اٹھائیں کہ بھلا چار سالہ بچی بھی امدادی کارکن یا طبی امداد فراہم کرسکتی ہے مگر اس کے والد نے اپنی کم عمر ننھی جہد کارہ کی جانثارانہ سوچ اور جذبے کی حیران کن تفصیلات بیان کی ہیں۔
مریم المغربی اور اس کا پورا خاندان عظیم الشان حق واپسیÂ اورغزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرتا ہے۔ خاندان کے تمام چھوٹے اور بڑے افراد احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں اور پوری تیاری کے ساتھ اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کرتے ہیں۔
جہاں تک امدادی کارکنوں کا تعلق ہے تو وہ مظاہرین کے شانہ بہ شانہ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ انہیں بھی صیہونی فوج کی طرف سے حملوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی منظم ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں اب تک متعدد فلسطینی امدادی کارکن شہید اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوچکے ہیں۔ مجموعی طور پر چھ ماہ سے جاری تحریک حق واپسی کے دوران اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 173 فلسطینی شہید اور 19 ہزار 600 زخمی ہو چکے ہیں۔
کم سن مجاھدہؔ
مریم کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کے چھوٹے بڑے تمام افراد چھ ماہ سے جاری تحریک حق واپسی میں بھرپور شرکت کر رہے ہیں۔ والدہ کا کہنا ہے کہ مریم انہیں یہ پوچھتی رہتی ہے کہ ہم لوگ سرحد پر کیوں جمع ہوتے ہیں؟ اور اسرائیلی فوجی ہم پر فائرنگ کیوں کرتے ہیں؟۔
مریم نے حال ہی میں اپنے والدہ سے کہا کہ وہ شہید طبی امدادی کارکن رزان نجار کی طرح زخمیوں کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔ رزان النجار کو چند ماہ قبل اسرائیلی نشانہ باز نے ایک خیمے میں زخمیوں کو مرہم پٹی کرنے کے دوران گولیاں مار کر شہید کردیا تھا۔
اب مریم المغربی بھی اپنی معصوم خواہش کے مطابق طبی عملے کے سفید لباس میں مظاہروں میں شرکت کرتی ہے۔ وہ اگرچہ کم زورÂ اور ناتواں ہونے کی وجہ سے زخمیوں کا علاج نہیں کرسکتی مگر ان کے آس پاس ضرور آتی جاتی ہے۔
طبیÂ سامان
حال ہی میں مریم کے والد نے بتایا کہ مریم کی طرف سے ایک روز ان سے طبی امدادی سامان منگوایا اور اس کے بعد وہ سامان ساتھ لیے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوگئی۔
اس نے اپنے ہاتھوں پر دستانے چڑھائے، اپنے بھائی کے زخمی ہاتھ کی مرہم پٹی کرنے لگی، جسے فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔
مریم کے دادا صبحی المغربی کا کہنا ہے کہ اس کی پوتی بھی غزہ کے دوسرے بچوں کی طرح اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہونے فلسطینیوں کو دیکھ کر بہت دکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہÂ باقاعدگی کے ساتھ ہمارے ساتھ احتجاجی جلوسوں میں شریک ہوتی ہے اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی مرہم پٹی میں مدد کرتی ہے۔
مریم کی والدہ ام براء کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ننھی منھی امدادی کارکن کے ساتھ ہیں۔ اسے تیار کرتے ہیں اور البریج پناہ گزین کیمپ تک لے جاتے ہیں۔ وہ کوئی پیشہ ور طبی کارکن نہیں مگر اس کے باوجود اس کا جذبہ بڑوں کے برابر ہے۔