غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) گذشتہ اتوار کو سعودی عرب کے شہر دمام میں ہونے والے 29 ویں عرب سربراہ اجلاس سے محمود عباس نے خلاف معمول مختصر خطاب کیا۔ انہوں نے قضیہ فلسطین کے اہم جوہری پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے بجائے فلسطینیوں کے درمیان اختلافات اور دیگر مسائل پر سرسری بات کی۔
محمود عباس کے عرب سربراہ اجلاس سے خطاب کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر عباس کا خطاب ان کے اندر پائی جانے والی مایوسی کا اظہار ہے۔ نیز انہوں نے اس خطاب میں کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ پرانی باتوں کا تکرار ہی کیا ہے۔ عرب سربراہ قیادت کی موجودگی میں انہوں نے چند منٹ تقریر کی حالانکہ وہ ماضی میں ایسے مواقع پر لمبی چوڑی تقاریر کرتے رہے ہیں۔تجزیہ نگاروں نے کہا کہ صدر عباس کے خطاب میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ انہوں نے قضیہ فلسطین کے حوالے سے کوئی جوہری بات کی اور نہ ہی تنازعات کا کوئی حل پیش کیا۔ وہ نہیں بتا سکے کہ عرب ممالک کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’صدی کی ڈیل‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے۔
سیاسی مایوسی
تجزیہ نگار اور فلسطینی پارلیمنٹ کے رکن حسن خریشہ نے کہا کہ محمود عباس کی تقریر ان کی سیاسی مایوسی کا عکاس تھی۔ ان کی مایوسی کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے۔ وہ یہ کہ قضیہ فلسطین کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کی سازشوں پر مبنی پالیسی نے صدر عباس کو کافی مایوس کیا ہے۔
انہوں نے عرب قیادت کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عرب ممالک قضیہ فلسطین کے حل کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ بات ان کی سیاسی مایوسی کی عکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ قضیہ فلسطین عرب ممالک کے لیے بنیادی نوعیت کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ خطے کے دیگر تنازعات میں سے ایک حل طلب معاملہ رہ گیا ہے۔
تجزیہ نگار ذوالفقار سویرجو نے کہا کہ محمود عباس کا خطاب زمینی حالات کے بالکل برعکس تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں تو بعض مواقع پر سخت لہجہ استعمال کیا مگر عملی میدان میں وہ ہمیشہ پسپائی کی راہ پر چلتے ہیں۔
پرانی باتوں کا تکرار
محمود عباس نے عرب سربراہ اجلاس سے خطاب میں جن الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال کیا وہ ان کے ماضی کے خطابات کا حصہ ہیں۔ یوں محمود عباس نے اپنی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ ماضی کی باتوں کا اعادہ کیا۔
خریشہ اور سویر جو دونوں کا ماننا ہے کہ صدر عباس نے اپنی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں کی۔ وہ جس مدار میں ماضی میں رہے ہیں اسی مدار میں تھے۔ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی جو ٹھہرے پانی میں کوئی تحریک پیدا کرسکتی۔
سویر جو نے کہا کہ محمود عباس کی تقریر کے وقت بہت سے سوالات جواب طلب تھے مگر انہوں نے کوئی ٹھوس بات نہیں کی۔
اختلافات برقرار رکھنے پر اصرار
تجزیہ نگار سویر جو کا کہنا ہے کہ محمود عباس کو یہ تو بہ خوبی معلوم ہے کہ ان کے سیاسی سفر کا سورج غروب ہونے والا ہے مگر وہ فلسطینیوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو ختم نہ کرنے پر مصر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محمود عباس نے غزہ کی پٹی کے عوام کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور ان کے اختتام کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ وہ قومی یکجہتی کے لیے کوئی فارمولہ پیش نہیں کرسکے اور نہ ہی وہ اسرائیل کے خلاف جاری فلسطینیوں کی عوامی مزاحمتی تحریک کے حوالے سے کوئی جاندار رائے دے پائے ہیں۔