الجعبری کی حیات وخدمات
احمد الجعبری سنہ 1960ء کو غزہ کی پٹی میں پیدا ہوئے مگر ان کا خاندان غرب رادن کےÂ جنوبی شہر الخلیل سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے خاندان نے الخلیل سے نقل مکانی کرکے غزہ کی پٹی میں الشجاعیہ کے مقام پر رہائش اختیار کی۔ ان کا خاندان فلسطینی تحریک آزادی میں پیش پیش رہا۔ خاندان کے کئی افراد صیہونی ریاست کی دہشت گردی میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں جب کہ بڑی تعداد میں ان کے ارکان خاندان کو مزاحمتی تنظیموں سے تعلق کے الزامات میں جیلوں میں بھی ڈالا گیا۔
احمد الجعبری نے اپنا جہادی سفر تحریک فتح کے ساتھ وابستگی سے کیا۔ انہیں پہلی بار سنہ 1984ء میں گرفتار کیا گیا۔ الجعبری پر اسرائیلی فوج نے ایک فدائی سیل تشکیل دینے کا الزام عائد کیا۔
جیل کے دوران احمد الجعبری کا تعارف حماس کے بانی سربراہ الشیخ احمد یاسین شہید اور ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی کے ساتھ ہوا۔
جیل میں اسیران کی قیادت
سابق اسیران کا کہنا ہے کہ احمد الجعبری اسرائیلی جیلوں میں ڈالے گئے اسیران کے قاید کی حیثیت سے سرگرمÂ رہے۔ وہ حماس کے رہنما ابراہیم المقادمہ کے زیادہ قریبی دوست بن گئے۔ سنہ 2003ء کو المقادمہ کو اسرائیلی فوج نے ایک حملے میں شہید کر دیا۔
جیل سے رہائی کے بعد وہ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ میں شامل ہوگئے اور تنظیم میں تربیتی امور کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
الجعبری کو اسرائیلی جیل سے سنہ 1996ء میں رہا کردیا گیا۔ تنظیم آزادی فلسطین کی طرف سے الجعبری کی رہائی کے لیے پیش کیے گئے ناموں میں شامل کیا تھا۔ ان اسیران کو اوسلو معاہدے کے تحت رہا کیا جانا تھا مگر صہیونی حکام نے الجعبری کی رہائی کی تجویز مسترد کر دی۔
سنہ 1997ء میں وہ پورےخلوص دل کے ساتھ اسلامی تحریک مزاحمت’حماس‘ اس اس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ میں شامل ہوگئے۔ انہیں فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے بھی متعدد بار گرفتار کیا اور فلسطینی جیلوں میں دو سال قید رہے۔
چیف آف اسٹاف
فلسطین میں سنہ 2000ء میں انتفاضہ الاقصیٰ کا آغاز ہوا۔ انہی ایام میں فلسطینی اتھارٹی کی جیل سے الجعبری کو رہائی بھی ملی۔ ان کا شمار القسام بریگیڈ کی عسکری کونسل کے تین بڑوں میں ہوتا تھا۔ بعد ازاں وہ القسام بریگیڈ کے ڈپٹی کمانڈر مقرر ہوئے۔
سنہ 2003ء میں اسرائیل نے ایک فضائی حملے میں القسام بریگیڈ کے کمانڈر صلاح شحادہ کو ایک حملے میں شہید اور محمد الضیف کو زخمی کردیا تو اسÂ کے بعد الضیف کو القسام بریگیڈ کا سربراہ جب کہ الجعبری کو نائب سربراہ مقرر کیا گیا۔
الجعبری بھی صیہونی بزدل فوج کی ہٹ لسٹ میں شامل تھے اور انہیں کئی بار شہید کرنے کے لیے قاتلانہ حملے کیے گئے۔ اگست 2004ء کو اسرائیلی فوج نے مشرقی غزہ میں الشجاعیہ کے مقام پر الجعبری کو شہید کرنے کے لیے طیاروں سے بمباری کی جس کے نتیجے میں ان کے بیٹا محمد، بھائی فتحی، داماد اور متعدد دیگرقریبی عزیز شہید جب کہ وہ خود اس میں معمولی زخمی ہوئے۔
سنہ 2006ء اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے جنگی قیدی بنائے جانے کے بعد احمد الجعبری کا اسرائیلی میڈیا میں غیرمعمولی چرچا ہونے لگا اور یہ کہا جانے لگا کہ شالیت کی گرفتاری میں الجعبری کا ہاتھ ہے۔
سنہ 2011ء میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مصر کی ثالثی کے تحت قیدویوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے مذاکرات کاروں میں الجعبری بھی پیش پیش رہے۔
الجعبری کی شہادت
بزدل صیہونی دشمن نے اپنی بزدلی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے 14 نومبر 2012ء کو غزہ کی پٹی میں الجعبری کی گاڑی پر بم باری کی جس کے نتیجے میں وہ اپنے ساتھی سمیت شہید ہوگئے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ الجعبری کو شہید کرکے اسرائیل نے گیلادÂ شالیت کو جنگی قیدی بنائے جانے کا بدلہ لیا۔ وہ پانچ بار صیہونی دشمن کے قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے۔ الجعبری نہ صرف عسکری میدان کے شہسوار تھے بلکہ انہوں نے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے لیے مصری نمائندوں کے ساتھ موثر مذاکرات کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک کامیاب مذاکرات کار بھی تھے۔ جب تک زندہ تھے انہوں نے صہیونی دشمن کی ہیبت کو خاک میں ملا رکھا تھا۔