نابلس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہروں، قصبات اور پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی ہر صبح اس خیال سے ہوتی ہے کہ انہیں آج ایک بار پھر قابض اسرائیلی ڈاکو صفت فوج کی وحشیانہ لوٹ مار، کریک ڈاؤن اور نہتے مردو خواتین اور بچوں پر تشدد کا سامنا ہوگا۔
کیوں؟ اس لیے کہ ایسا روز کا معمول بن چکا ہے۔ دن کے اوقات میں کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ رات کے اوقات میں بھی روز مرہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کی گرفتاریوں کے ساتھ لوٹ مار کی جاتی ہے۔فلسطینی شہریوں کی گرفتاری مہمات کے دوران نہ صرف اسرائیلی فوج حصہ لیتی ہے بلکہ خفیہ ادارے ’شاباک‘ کے انٹیلی جنس حکام بھی اس گھناؤنی مہم میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ فلسطینی بچوں کو گرفتار کرتے، انہیں ہولناک اذیتیں دیتے، فلسطینیوں کے گھروں میں گھس کر تلاشی کی آڑ میں قیمتی سامان بالخصوص نقدی اور طلائی زیورات لوٹتے ہیں۔
بعض اوقات گھروں میں تلاشی کے دوران بعض ایسی چیزیں بھی قبضے میں لی جاتی ہیں جو اسرائیلی فوج کے بہ قول قتل کے آلات یا ہتھیاروں کے زمرے میں آتی ہیں۔
پورے سال کی طرح گذشتہ دنوں اسرائیلی فوج نے غرب اردن کے مختلف شہروں میں اسرائیلی فوج کے گھر گھر تلاشی کی مہم کے دورانÂ بڑی تعداد میں فلسطینی نوجوانوں اور اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے وابستگان کو حراست میں لیا۔ ان میں سے بیشتر اسکولوں اور جامعات کے طلباء اور طالبات تھے۔ سب سے زیادہ گرفتاریاں بیرزیت، رام اللہ اور نابلس کے مقامات سے کی گئیں۔ گرفتار ہونے والوں میں جامعہ النجاح میں زیرتعلیم طلباء بالخصوص اسلامک بلاک کے ارکان شامل ہیں۔
فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد اور لوٹ مار کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ گالم گلوچ اور غیر مہذبانہ انداز بیان بھی اسرائیلی فوج کا وتیرہ بن چکا ہے۔
لوٹ کے اعلیٰ سطح سے احکامات
فلسطینی تجزیہ نگار یاسر مناع نے کہا کہ اسرائیلی فوج نےÂ مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی لوٹ مار مہم میں بہ تدریج تیزی لائی لا رہی ہے۔ اس گھناؤنی مہم کا مقصد فلسطینی شہریوں کے ذرائع آمدن محدود کرنے کے ساتھ انہیں نقدی اور طلائی زیورات سے محروم کرنا تھا۔ اس مہم کو آگے بڑھانے کے لیے اسرائیلی دشمن کے پاس فلسطینیوں کے مزاحمتی کارروائیوں کا من گھڑت جواز بھی ہمیشہ رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کے پاس موجود رقوم ہی نوجوانوں کو مسلح مزاحمت میں مدد دیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے گھروں میں لوٹ مار کے لیے فوج کو اعلیٰ کمان کی طرف سے ہدایات دی جاتی ہیں۔
فواد الخفش کے مطابق اسرائیلی فوج نے حالیہ ایام کے دوران بیرزیت میں جامعہ النجاح کو خاص طور پر اس لیے نشانہ بنایا ہے کہ اس یونیورسٹی میں طلباء کی اکثریت فکری اور نظریاتی طور پر اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی ہم خیال ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیلی فوج نے حماس سے قربت رکھنے والے طلباء کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ کیا ہے۔ سنہ 1990ء کے عشرے کے بعد سے اب تک یہ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔
اسرائیلی قذاقی
فلسطینی شہریوں کے گھروں میں مسلح ڈکیتی مہم اور لوٹ مار اب روز مرہ کا معمول بن چکی ہے۔ گزشتہ کئی سال سے یہ سلسلہ جاری تھا مگر حالیہ عرصے کے دوران اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
فلسطینی بلاگر اور تجزیہ نگار امینہ الطویل کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینی شہریوں کے گھروں کا صفایا ایک ریاستی پالیسی کے تحت کررہا ہے۔ اسرائیلی فوج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کے گھروں میں گھس کر انہیں گرفتار کرنے کے ساتھ تلاشی کی آڑ میں انہیں نقدی اور دیگر قیمتی چیزوں سے محروم کررہی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد فلسطینی شہریوں پر معاشی عرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج سب سے بڑا نشانہ اور شکار حماس اور اسلامی جہاد کے کارکنان ہیں۔ اسرائیلی فوج کا خیال ہے کہ وہ غرب اردن میں فلسطینیوں پر معاشی عرصہ حیات تنگ کر کے انہیں حماس اور اسلامی جہاد سے قربت سے روک دے گی۔
ابو علان کا کہنا ہے کہ دن رات فلسطینی گھروں پر چھاپے، گرفتاریاں اور لوٹ مار کے ذریعے اسرائیلی فوج صیہونی سماج کو یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ فورسز دن رات ان کے دفاعÂ میں مصروف عمل ہے۔
غرب اردن ہی کیوں؟
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار عماد ابو عواد نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے گذشتہ کئی ماہ سے غرب اردن میں خاص طور پر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
اسلحہ ضبط کرنے اور فلسطینی شہریوں کے گھروں سے رقوم کی لوٹ مار کے ذریعے اسرائیلی ریاست دراصل فلسطینیوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا پیغام دے رہی ہے۔ تازہ کریک ڈاؤن اور لوٹ مار کا ایک محرک غزہ کی پٹی کے تازہ حالات بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ غزہ میں چند ہفتے پیشتر مزاحمت کاروں کی ایک سرنگ پر اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجے میں ایک درجن مجاھدین کی شہادت کے واقع نے غرب اردن کے عوام کو بھی سخت برہم کیا ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج کو بھی خدشہ ہے کہ غزہ کی پٹی کسی بھی وقت جنگ کا اکھاڑا بن سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے رد عمل میں غرب اردن میں عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے اور اسرائیلی فوج کے خلاف پر تشدد مزاحمتی کارروائیاں شروع ہوسکتی ہیں۔
ابو عواد کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی توجہ غرب اردن کے نوجوان طبقے پر ہے۔ زیادہ تر گرفتار فلسطینیوں کی عمریں 18 سے 22 سال کے درمیان ہیں۔ الغرض غرب اردن میں اسرائیلی فوج کی لوٹ مار مہم کے کئی پہلو ہیں مگر سب سے بڑا اور اہم ترین پہلو فلسطینیوں پر اقتصادی عرصہ حیات تنگ کرنا اور فلسطینی شہداء اور اسیران کے اہل خانہ کو بنیادی انسانی ضروریات سے محروم کرنا ہے۔