فلسطینی قومی حکومت کی تشکیل اور قومی مصالحت کا پہلا قدم غزہ کی پٹی کے عوام کے مسائل کا حل ہونا چاہیے۔ غزہ کی پٹی پر عائد کردہ پابندیوں کا خاتمہ اور بحرانوں سے دوچار عوام کو ریلیف فراہم کرنا چاہیے۔ مگر تحریک فتح کے دو مرکزی رہنما حسین الشیخ اور عزام الاحمد کے بیانات نے فلسطینی مصالحتی عمل کے حوالے سے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
فلسطینی مصالحت کے حوالے سے بحران اس وقت مزید شدت اختیار کرگیا جب گذشتہ منگل کو بعض ملازمین کو سرکاری اداروں میں کام کے لیے واپس لانے پرزور دیا گیا اور بہت سے سابق ملازمین کو گھر بھیج دیا گیا۔ تحریک فتح کے رہنما اور مصالحتی مذاکرات کار عزام الاحمد کے متنازع بیان کے بعد غزہ میں سرکاری ملازمین کشیدگی پیدا ہوگئی اور اس کشیدگی نے عوام الناس میں غم وغصے کی لہر دوڑا دی۔
تحریک فتح کی قیادت کی طرف سے بعض متنازع بیانات اور یک طرفہ اقدامات پر حماس کے غزہ کی پٹی کے صدر یحییٰ السنوار کو تمام جماعتوں کا اجلاس منعقد کرنا پڑا۔ حماس رہنما السنوار اور نائب صدر زیاد ابو عمر نے ملاقات کی۔ حماس اور فتح کی قیادت نے قومی حکومت کی تشکیل کے لیے مصر سے مزید 10 روز کا وقت مانگا ہے۔ تمام فلسطینی دھڑے اس بات پر متفق ہیں کہ غزہ کی پٹی کے عوام پر عائد کردہ پابندیوں کو ہرصورت میں ختم کیا جائے گا اور معاملات سنہ 2011ء کو طے پائے معاہدے کے فریم ورک کے مطابق طے کیے جائیں گے۔
غیرملکی دباؤ
فلسطینی تجزیہ نگار اور عوامی محاذ کے رہنما ذوالفقار سویرجو نے کہا کہ قومی حکومت کے قیام میں تاخیر غیرملکی دباؤ کا نتیجہ ہے جو خطے میں نئی صف بند اور کسی بڑے اور وسیع پروگرام کے تحت روبہ عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصالحت فلسطینی جماعتوں کے درمیان قومی اجماع کا بہترین پروگرام ہے مگر اس کو عملی شکل میں لانے کے لیے کئی رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔ اگر کسی ایک فریق کو مصالحت کے تحت جھکنے کے لیے دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے میں مصالحت کا عمل مشکل سے دوچار ہوگا۔ اگر فلسطینی جماعتوں نے مصالحت کے تحت مسائل کے حل کے لیے کوئی فارمولہ وضع نہ کیا تو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے کیونکہ بعض ممالک اور ادارے اسرائیل کے مفاد میں کام کررہے ہیں۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کہا ہے کہ وہ فلسطین کے معاملے کو قدم بہ قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ امریکی صدر نے زور دیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے علاقے کو کسی ایسے فریم میں بند کیا جائے تاکہ وہ نہ تو آنے والے مراحل میں کسی طرح اثرانداز ہو اور نہ ہی ایران اور روس کے اثرات بھی کم کیے جاسکیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تحریک فتح کا دیگر فلسطینی دھڑوں کے موقف سے مختلف ہے۔ تمام جماعتوں کے درمیان غزہ کی پٹی کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے پر اتفاق ہے مگر تحریک فتح مصالحت کے حوالےسے طے شدہ امور پرعمل درآمد سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔
سمجھوتے پر عمل درآمد
تجزیہ نگار اور جمہوری محاذ کے رکن محمود خلف نے فلسطینیوں کے درمیان طے پائے مصالحتی معاہدے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مصر نے فلسطینیوں میں مصالحت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے معاون کا کردار ادا کیا ہے مگر اصل کام فلسطینی گروپوں کو انجام دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ قومی مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے جس قدر لچک اور تحمل کا مظاہرہ حماس کی جانب سے کیا گیا کسی دوسری جماعت کی طرف سے نہیں کیا گیا۔حماس نے غزہ کی پٹی میں اپنی انتظامی کمیٹی تحلیل کردی، غزہ کی پٹی میں تمام حکومتوں کی ذمہ داری تحریک فتح کے حوالے کردی اور دیگر تمام جماعتوں کو ساتھ لے کرچلنےکی پالیسی اپنائی۔
ایک سوال کے جواب میں محمود خلف کا کہنا تھا کہ پچھلی سے پچھلی حکومت کے دوران فارغ کئے گئے ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرنا اور گذشتہ حکومت کے ملازمین کو نظرانداز کرنا مصالحتی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ تحریک فتح اور فلسطینی حکومت کو طے شدہ مصالحتی نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔
قانون کی خلاف ورزی
فلسطینی تجزیہ نگار نافذ المدھون کا کہنا ہے کہ فلسطینی جماعتوں میں سیاسی عزم کے فقدان سے مصالحت کے عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وزیراعظم رامی الحمد اللہ کے بعض اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اخلاص کے ساتھ فلسطینی ملازمین کے حقوق کے بارے میں غور نہیں کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے انتظامی اور قانونی کمیٹی کی تشکیل کی اشد ضرورت ہے۔ وزیراعظم الحمد اللہ کے اقدامات بے چینی پیدا کررہے ہیں۔ فلسطینی ملازمین کے معاملے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرنا دیگر تمام ایشوز سے زیادہ خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت آئینی اعتبار سے مشکوک ہے۔ جب تک فلسطینی حکومت کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ نہیں مل جاتا اس وقت تک اس کے اقدامات کو قانون کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔