رپورٹ میں اقوام متحدہ کی فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف ماضی میں منظورکردہ دیگر قراردادوں پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔ ان قراردادوں کے اہم نکات کیا تھے؟ ان پر کتنا عمل درآمد ہوا اور فلسطینیوں کو ان قراردادوں سے کتنا فائدہ پہنچا ہے؟ اس رپورٹ میں انہی سوالوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ میں منظور ہونے والی قراردادوں کے دوران کئی اور بھی ایسی ہی قراردادیں پیش کی گئیں مگرانہیں صہیونی ریاست کے لے پالک (امریکا) نے ویٹو کرکے فلسطین ہی نہیں بلکہ انسان دشمنی کا ثبوت دیا۔ امریکا نے ہر بار فلسطین کی حمایت میں منظور کردہ قراردادوں میں صہیونی ریاست کا ساتھ دیا۔ کبھی ان قراردادوں کی منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے’ویٹو‘ پاور کا استعمال کیا اور کبھی رائے شماری سے راہ فرار اختیار کی۔ یوں امریکا نے ہراہم موقعے پر فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کی مساعی کی حوصلہ شکنی کی۔
آئیے ماضی میں جھانک کر فلسطین کی حمایت میں منظور ہونے والی قراردادوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
قرار داد نمبر242
یہ قرارداد 22 نومبر 1967 کو’نکسہ‘ جنگ کے بعد جاری کی گئی تھی۔
اس قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے بعض کو متنازع قرار دیتے ہوئے فلسطینی علاقوں سے اسرائیل سے نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس قرارداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات کے حل، عالمی گذرگاہوں کو سرگرمیوں کی مکمل آزادی مہیا کرنے، پناہ گزینوں کے منصفانہ حقوق، اسلحہ سے پاک علاقے کا قیام اور مشرق وسطیٰ میں دیر پر قیام امن کے لیے موثر اقدامات کے مطالبات شامل ہیں۔
قرارداد 338
یہ قرارداد 22 اکتوبر 1973ء کی اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگ کے بعد جاری کی گئی۔
اس قرارداد میں فریقین میں جنگ بندی اور قرارداد 242 کے تمام نکات پر جلد از جلد عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا۔
اس قرارداد میں جنگ بندی پر قائم رہنے، مذاکرات کے آغاز اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے حالات سازگار بنانے کے اقدامات پر زور دیا گیا۔
قرارداد 446
یہ قرارداد 22 مارچ 1979ء کو منظور کی گئی۔ اس میں سلامتی کونسل نے سنہ 1967ء بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے شہروں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی مذمت کی گئی۔ اس قرارداد میں بھی یہودی بستیوں کی تعمیر فوری روکنے اور مشرق وسطیٰ میں پائیدارامن کے قیام کے مفاہمانہ اقدامات پر زور دیا گیا تھا۔
اس قرارداد میں جنیوا معاہدے کے کنونشن 4 کے نکات پرعمل درآمد یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔ قرارداد میں یہودی آبادکاری اور توسیع پسندی کے حوالے سے اٹھائے گئے تمام سابق اقدامات کا کالعدم قراردینے، بیت المقدس میں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اقدامات روکنے اور سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے عرب شہروں سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی روکنے اور فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا سلسلہ ختم کرنے کے مطالبات کیے گئے۔ اس قرارداد میں جولائی 1979ء میں قیام امن اور مسئلے کے منصفانہ اور سیاسی حل کے لیے قائم کردہ کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
قرارداد 452
یہ قرارداد 22 جولائی 1979ء کو منظور کی گئی۔ اس میں واضح کیا گیا کہ فلسطینی عرب شہروں میں اسرائیلی بستیاں عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور جنیوا 4 معاہدے کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔ 14 اگست 1949ء کو منظور ہونے والے چوتھے جنیوا معاہدے کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے اور کسی خاص طبقے کی اراضی پر غاصبانہ قبضے کی مخالفت کی گئی ہے۔
اس قرارداد میں سنہ 1967ء کے عرب شہروں میں یہودی آباد کاری فوری روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔
چودہ ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت کی مگر امریکا نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد 465
یہ قرارداد 1980ء میں منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں بھی یہودی آباد کاری میں توسیع اور سنہ 1967ء کے مقبوضہ عرب شہروں سے فلسطینیوں کے جبری انخلاء کو روکنے اور فلسطینی اراضی پر آباد کاری کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی اراضی پر یہودی آباد کاری کے حوالے سے بنیادی ڈھانچے میں جو مالیاتی اور جغرافیائی تبدیلیاں کی ہیں۔ ان پرمزید عمل درآمد روکا جائے اور فلسطین کا سنہ 1967ء کی چھ روزہ جنگ سے قبل والی پوزیشن بحال کی جائے۔ قرارداد میں بیت المقدس میں اسرائیلی سرگرمیوں کو عالمی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کے لیے مؤثر اقدامات پر زور دیا گیا۔ اس قرارداد میں Â فلسطینی شہروں میں بیرون ملک سے لا کر یہودیوں کو آباد کرنے کی پالیسی ترک کرنے، دیر پا امن کے قیام اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔
قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عالمی برادری مقبوضہ فلسطینی عرب علاقوں میں اسرائیلی اقدامات اور منصوبوں میں مدد نہ کرے۔
قرارداد 476
یہ قرارداد 30 جون 1980ء میں منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں بیت المقدس کا نقشہ تبدیل کرنے کی سازشوں کی مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ طاقت کے ذریعے فلسطینی علاقوں پر قبضہ ناجائز ہے۔ قرارداد میں القدس میں موجود مقدس مقامات کا دینی اور روحانی تقدس قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
اس قرارداد کی چودہ ممالک نے حمایت کی جب کہ امریکا نے قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد 478، مجریہ 20 اگست 1980ء
اس قرارداد میں بھی بار دیگر فلسطینی علاقوں میں طاقت کے زور پر فلسطینی اراضی پر قبضے کی مذمت کی گئی اور القدس کے حوالے سے اسرائیل کے منظور کردہ قوانین کو مسترد کردیا گیا۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ جنیوا معاہدے کے اصولوں کی خلاف ورزی عالمی قوانین ناقابل قبول ہے۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں قبضے کے لیے اسرائیل کی قانون سازی کی تمام کوششیں، بیت المقدس کے مقدس مقامات کا نقشہ مٹانے اور مقدس مقامات پر قبضے کو باطل اقدامات قرار دیا گیا۔
قرارداد 1397 مجریہ 12 مارچ 2002ء
اقوام متحدہ کی فلسطین کے حوالے سے منظور کی جانے والی اس قرار داد میں ستمبر 2000ء کے بعد اسرائیلی فوج اور پولیس کے ہاتھوں فلسطینیوں پر تشدد کے استعمال کی مذمت کی گئی۔ قرارداد میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی ضرورت پرزور دیا گیا۔
اس قرارداد کی 14 ملکوں نے حمایت کی جب کہ شام نے اس قرارداد کی رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد 1515، مجریہ 9 نومبر 2003ء
اس قرارداد میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے قائم کردہ گروپ چار کے روڈ میپ کی حمایت کی گئی اور دو خود مختار ریاستوں کے اصولوں کے تناظر میں فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے حل پر زور دیا گیا۔
قرارداد میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ قضیہ فلسطین کے حل کے لیے گروپ چار کے وضع کردہ فارمولے کے تحت دو ریاستی حل کے لیے مل کر کوششیں کریں۔ مشرق وسطیٰ میں ایسا امن قائم کیا جائے تاکہ دو خود مختار ریاستیں اچھے ہمسائیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکیں۔
قرارداد 1850 مجریہ 23 دسمبر 2008ء
اس قرار داد میں مصر کے شہر اناپولس میں میریلینڈ ہوٹل میں 27 نومبر 2007ء کو ہونے والی کانفرنس کے تحت طے پائے فیصلے کے تحت فلسطین اور اسرائیل پر مذاکرات کی بحالی پر زور دیا گیا۔
قرارداد میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل پر زور دیا گیا کہ وہ بات چیت کا سلسلہ بحال کریں اور مسئلے کے حلے کے لیے وضع کردہ گروپ چار کے روڈ میپ کی شرائط پرعمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی ساتھ فریقین اعتماد سازی کی فضاء قائم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے پر زور دیا گیا۔
یہ درجن بھر قراردادوں کے طویل سفر کے باوجود مسئلہ فلسطین ھنوز حل طلب ہے اور عالمی برادری صہیونی ریاست کو نکیل ڈالنے اور فلسطینیوں کو حق خود ارادیت دینے سمیت دیگر بنیادی حقوق فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔