حال ہی میں اسرائیل کی ایک عدالت نے ایک عیسائی نوجوان کو یہودی فوجیوں پر چاقو سے حملے اور متعدد فوجیوں کو زخمی کرنے کے جرم میں نو سال قید کی سزا سنائی۔ نو سال کے لیے زنداں میں ڈالے گئے عیسائی نوجوان کی جرات اور بہادری کو فلسطینی ہی نہیں بلکہ عالم اسلام بھی سلام پیش کرتے ہیں کیونکہ اس نے مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اس کے دفاع اور مسجد میں مسلمانوں کی عبادت میں رکاوٹیں ڈالنے کی مخالفت کرتے ہوئے فدائی حملہ کیا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 22 سالہ مسیحی جون قاقیش کا تعلق مقبوضہ بیت المقدس سے ہے۔ اس نے مارچ 2015ء کو مسجد اقصیٰ کےدفاع میں یہودی شرپسندوں پر چاقو سے حملہ کیا اور متعدد صہیونیوں کو زخمی کردیا۔ اسرائیلی پولیس نے جون قاقیش کو گرفتار کیا۔ صہیونی ریاست کے خفیہ ادارے’شاباک‘ کے تفتیش کاروں نے قاقیش سے تفتیش شروع کی تو پہلا سوال پوچھا کہ ’آپ نے چاقو سے یہودی آباد کاروں پر حملہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا’تو کیا میں یہودی شرپسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے مقدس مقام مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا تماشا دیکھتا۔ اسرائیلی پولیس جب فلسطینی نمازی خواتین کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے پر تشدد کا نشانہ بناتے میں تب بھی چُپ سادھے رہتا، میں اس لیے خاموش رہتا کہ مسجد اقصیٰ تو مسلمانوں کا مقدس مقام ہے، ہمارا اس سے کیا لینا دینا؟‘ صہیونی تفتیش کاروں نے دوسرا سوال پوچھا کہ کیا آپ عیسائی ہیں؟۔
اس نے جواب دیا کہ ’میرا نام جون قاقیش ہے میں بلا خوف تردید یہ کہتا ہوں کہ عیسائیت میرا مذہب، مسلم میری خواہش، فلسطین میرا وطن اور میری شناخت ہے جب کہ بیت المقدس میری امنگوں اورجذبوں کا شہر ہے‘۔ یہ طویل اور جرات مندانہ جواب سن کرصہیونی تفتیش کار بھی ششدر رہ گئے۔ اس کے بعد اسے کئی روز تک تشدد کا نشانہ بناتے رہے مگر قاقیش اپنے عزم پر قائم رہا اور کہا کہ اس نے مسجد اقصیٰ کے دفاع میں یہودی فوجیوں پر چاقو سے حملہ کیا ہے۔ ہمارے نزدیک مسجد اقصیٰ اور کنیسہ القیامہ’(القیامہ گرجا گھر) دونوں یکساں مقدس مقامات ہیں۔ پھر صہیونی انٹیلی جنس اداروں نے قاقیش کے خلاف فرد جرم تیار کی اور عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ اسے نو سال قید کی سزا کا حکم دے۔ عدالت نے بلا تحقیق جون قاقیش کو نو سال قید با مشقت کی سزا کا حکم صادر کردیا۔
بیت المقدس میں جون کا آبائی قصبہ حارہ النصاریٰ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پر اکثریت عیسائی برادری کے باشندوں کی ہے مگر یہاں کے عیسائی بھی اسرائیلی پولیس گردی اور فوج کی دہشت گردی کا مسلسل سامنا کرتے رہے ہیں۔ قاقیش کا کہنا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے ہونے والی فلسطینیوں کی سرگرمیوں اور یکجہتی مظاہروں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا ہے۔ اس نے یہودی شدت پسندوں کو کئی بارنہتے فلسطینیوں کو مارتے پیٹتے دیکھا تو اسے بہت دکھا ہوا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ عیسائی ہونے کے باوجود وہ مسجد اقصیٰ کا محافظ اور سپاہی رہے گا۔
جون قاقیش کے والد جون نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا ہمیں بیٹے کو اسرائیلی عدالت کی طرف سے دی گئی سزائے قید پر کوئی دکھ نہیں۔ اس نے یہودی آباد کاروں اور فوجیوں پر چاقو سے حملہ کرکے وطن، اقصیٰ اور عیسائی عبادت گاہوں کے دفاع کا اپنا فرض پورا کیا ہے۔
عیسائی برادری کا قابل تحسین کردار
فلسطین میں اسیران کے امور کے لیے سرگرم ادارے’کلب برائے اسیران‘ کے ڈائریکٹر ناصر قوس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فوجی عدالت سے عیسائی نوجوان جون قاقیش کونو سال کی جو قید کی سزا سنائی ہے اس میں الزام عاید کیا گیا ہے کہ وہ دفاع مسجد اقصیٰ اور فلسطینی مسلمان مرابطین اور مرابطات کے دفاع میں سرگرم رہا ہے۔ قوس کاکہنا ہے کہ عیسائی برادری کا فلسطینی مقدسات کےدفاع میں کردار قابل تحسین ہے۔ عیسائی برادری گرجا گھروں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کے دفاع کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنے عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے بھی ہرطرح کی قربانی دیتی رہی ہے۔
ناصر قوس کا کہنا ہے کہ عیسائی برادری کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک اگر مسجد اقصیٰ خطرے میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہےکہ فلسطین میں عیسائیوں کے مقدس ترین مقام کنیسہ القیامہ خطرے میں ہے۔ اس لیے وہ اپنے مقدس مقام کے دفاع کے ساتھ مسلمانوں کے مقدس مقامات کے دفاع کے لیے بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
ناصر قوس کا کہنا ہے کہ عیسائی برادری فلسطین کے اصلی باشندوں میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائی شہری بھی غاصب صہیونیوں کی انتقامی کارروائیوں کا شکار رہتے ہیں۔ فلسطین کے مسلمان عیسائیوں کو قوم کا جزو لازم خیال کرتے ہیں اور یہاں بسنے والے عیسائی اور مسلمان اخوت اور بھائی چارے کے مضبوط اور گہرے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ عیسائی مسلمانوں کے اور مسلمان عیسائیوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں اور مل کر بیت المقدس کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرتے اور قربانیاں دیتے ہیں۔
دفاع قبلہ اوّل کے لیے بیت المقدس میں ایک کمیٹی بھی کام کررہی ہے جس میں عیسائی اور مسلمان دونوں اقوام کے نمائندے شامل ہیں۔ یہ کمیٹی بیت المقدس میں یہودیت کے فروغ اور تسلط کے حوالے سے ہونے والی سازشوں کو مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر اٹھانے میں اہم کردار ادا کرہی ہے۔