ٹرمپ کے اعلان القدس اور امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے اعلان سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا صاف صاف صیہونی ریاست کی طرف داری کررہا ہے۔ جب کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے قضیہ فلسطین کے دفاع اور امریکی صیہونی گٹھ جوڑ کی روک تھام کے لیے قومی سطح کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی سیاسی دھڑے قضیہ فلسطین کے تصفیے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کے لیے اپنی صفوں میں یکجہتی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں۔
امریکا کی طرف سے پیش آئند ایام ہونے والے متوقع فیصلوں اور اقدامات کے خلاف فلسطینیوں کی جانب سے مؤثر فیصلوں کی ضرورت ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطین کی موجودہ سیاسی صورت حال کے تین منظرنامے ہیں۔
مُشکل آپشنز
فلسطینیوں کے لیے فیصلے ناممکن نہیں مگر موجودہ انتظار کی حالت میں کمزوری کا پہلو موجود ہے۔ کیونکہ اس وقت فلسطینی قیادت ’صدی کی ڈیل‘ کے لیے منتظر ہے۔ فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابو عامر کا کہنا ہے کہ امریکا کا یہ مسلسل طرز عمل رہا ہے کہ وہ خطے میں اپنے ویژن اور ایجنڈے کو مسلط کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا ہے۔
ان کاÂ کہنا ہے کہ عرب ممالک کے سرکاری مؤقف میں امریکا کے ساتھÂ دوستانہ مراسم اور عرب ممالک کے داخلی اختلافات کے جاری رہتے ہوئے کوئی ٹھوس اور مربوط لائحہ عمل مرتب کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
تین منظرنامے
تجزیہ نگار ایمن الرفاقی کا کہنا ہے کہ تین منظرنامے فلسطین کی موجودہ سیاسی حالت کی عکاسی کرتے ہیں۔۔ لمحہ موجود میں قضیہ فلسطین حساس دور سے گذر رہا ہے۔ امریکا اور اس کے حواری قضیہ فلسطین کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اسرائیل اور امریکا مل کر فلسطین پر اپنا من پسند ایجنڈا مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
الرفاتی کا کہنا ہے کہ فلسطین کے سیاسی پس منظر کا ایک منظرنامے فلسطینی اتھارٹی کو تحلیل کرکے اسرائیل کی سول ایڈمنسٹریشن کے ذریعے غرب اردن کا انتظام چلانا ہے۔ اس طرح فلسطینیوں کے وجود کو شہروں کی حد تک متعین کرنا اور اسرائیلی بلدیاتی نظام کے تحت فلسطینی شہروں کا نظام چلانا۔ اس کے اگلے اثر کے طور پر فلسطین میں صیہونی آباد کاری میں اضافہ اور فلسطینی آبادی کو جبری ھجرت پر مجبور کرنا ہوسکتا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست غرب اردن پر اپنی قانونی عمل داری قائم رکھنے کے لیے مختلف حربوں پر عمل پیرا ہے۔
جہاں تک دوسرے منظرنامے کا معاملہ ہے تو تجزیہ نگار الرفاتی کا کہنا ہے کہ فلسطین میں وسیع پیمانے پر انتفاضہ شروع ہوسکتی ہے اور یہ انتفاضہ صیہونی ریاست کے خلاف تمام محاذوں پر مزاحمت شروع ہو سکتی ہے۔ اسرائیل اورامریکا کی موجودہ اشتعال انگیزی میں فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ میں شدت آنے کے وسیع اور قوی امکانات موجودÂ ہیں۔
تیسرے منظرنامے میں فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ تمام فلسطینیوں کا پُرامن طریقے سے مقبوضہ فلسطین کی طرف عظیم الشان مارچ ہے۔ یہ مارچ اسرائیل کو مشکل میں ڈال سکتا ہے اوراس کے نتیجے میں قضیہ فلسطین ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوسکتا ہے اور صیہونی ریاست کو فلسطینیوں کے حقوق سے تجاوز کی راہ روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔