نابلس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں صیہونی آباد کاروں کے لیے قائم کردہ کالونیاں جہاں فلسطینیوں کی عمومی زندگی کے لیے ایک عذاب ہیں تو وہیں دوسری جانب یہ کالونیاں فلسطینیوں کی عبادت کی راہ میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
آئے روز المناک اور افسوسناک خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ صیہونی شرپسندوں نے فلاں علاقے کی مسجد کو آگ لگا دی، فلاں مسجد کی بے حرمتی کی گئی۔ فلاں مسجد میں صیہونی داخل ہوگئے۔ فلاں مسجد کو شہید کر دیا گیا اور فلاں مسجد کو شہید کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔یوں صیہونی کالونیوں کے قریب واقع مساجد میں نمازیں ادا کرنے والے فلسطینی خوف کے سائے میں عبادت کرتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی احوال غرب اردن کے شمالی شہر نابلس کے جنوبی قصبے بورین کا ہے جہاں پر مسجد سلیمان الفارسی مسجد میں نمازیں ادا کرتے ہوئے فلسطینیوں کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ صیہونی شرپسند انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ اسی طرح جنوبی شہر قلقیلیہ میں عزون میں واقع مسجد کو حالیہ عرصے کے دوران غاصب صیہونیوں کی جانب سے نسل پرستانہ کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بورین کے میئر اور یونین کونسل کے چیئر مین یحییٰ قادوس نے کہا کہ ان کے قصبے کے اطراف میں کئی صیہونی کالونیاں قائم ہیں اور ان کالونیوں میں بسائے گئے صیہونی آباد کار کئی سال سے مساجد کے خلاف اپنی شرانگیزی کا اور مکروہ جارحیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صیہونی شرپسند کسی نا کسی حیلے اور بہانے سے قصبے کی مساجد کو شہید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
قادوس نے کہا کہ 10 سال پیشتر بورین قصبے کے باسیوں نے ایک مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مسجد کی رجسٹریشن کے لیے فلسطینی اتھارٹی سے تمام تر دستاویزات بھی تیار کرالی ہیں۔ جس مسجد کی تعمیر کا مرحلہ آیا ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کی اسرائیل کی سول ایڈمنسٹریشن نے مسجد کی تعمیر روکنے کا حکم دیا اور تعمیر شدہ حصے کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ صیہونی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لیے ان سے اجازت نہیں لی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ غرب اردن کے سیکٹر "C ” میں فلسطینیوں کی مساجد مسمار کرنے کے لیے اسرائیلی انتظامیہ کی طرف سے حیلے بہانے تراشے گئے تاہم مقامی فلسطینی آبادی نے مسجد کی تعمیر کا مشن جاری رکھا۔
جب مسجد بن کرتیار ہوگئی تو مقامی فلسطینی آبادی کو صیہونی آباد کاروں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آئے روز صیہونی شرپسندوں کی طرف سے مسجد کو شہید کرنے اور نمازیوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دی جاتیÂ ہیں۔
قادوس نے بتایا کہ مسجد کے اطراف میں کئی پرانے گھر ایک مدرسہ بھی قائم ہے جو ایک سو سال پرانا ہے۔ یہ مدرستہ اس اراضی پر فلسطینیوں کے وجود کا عملی ثبوت ہے۔
اسی طرح مشرقی قلقیلیہ کا قصبہ عزون ہے جس میں موجود جامع مسجد کے نمازیوں کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئی، صیہونی آباد کار اور اسرائیلی انتظامیہ دونوں اپنی شرپسندانہ کارروائی میں متحد ہوگئے اور فلسطینیوں کو طاقت سے مسجد کی تعمیر سے روکنے کی کوشش کی گئی۔
عزون کے ایک مقامی فلسطینی عہدیدار حسن شبیطہ نے بتایا کہ مسجد کی تعمیر سے لے کر آج تک ہمیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف فلسطینی آبادی کو ڈرایا گیا بلکہ مسجد کی تعمیر کرنے والے مزدوروں اور دیگر تعمیراتی عملے کو بھی ہراساں کیا گیا۔
فلسطینی تجزیہ نگار غسان دغلس کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں ہر دوسری مسجد کا کیس ایک ہی جیسا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے مذہبی شعائر کی ادائیگی سے روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مساجد کی تعمیر پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور تعمیر شدہ مساجد کو شہید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ بورین اور عزون کے مقامات پر فلسطینی مساجد میں نمازی اسرائیلی فوجÂ اور صیہونی آباد کاروں کی نسل پرستانہ تلوار کے سائے میں نماز ادا کرتے ہیں۔ ایسی ہی مثالیں بیت لحم، سلفیت، الخلیل، بیت المقدس اور فلسطین کےدوسرے شہروں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
دغلس کا کہنا تھا کہ فلسطینی شہریوں کو مساجد میں نمازوں کی ادائیگی سے روکنے کے لیے بھی مکروہ حربے اور خطرناک ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔