جنین (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) ارض فلسطین کو تاریخی اعتبار سے سرزمین صوفیاء بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر کئی بزرگان دین نے دین اسلامی کی اشاعت کے لیے اپنے مرکز قائم کیے اور اسلام کے صوفی سلسلوں کو آگے بڑھایا۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ غرب اردن اور بعض دوسرے فلسطینی علاقوں میں صوفی سلسلوں سے وابستہ مراکز ویران ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ان سلسلوں سے وابستہ مشائخ انہیں ایک بار پھر زندہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔دریائے اردن کے مغربی کنارے کے کئی شہر اپنی صوفی سلسلوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ان میں غرب اردن کا شمالی شہر جنین صوفیا کا مرکز رہا ہے مگر اب اس شہر میں صوفیہ کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صوفیہ اپنے مخصوص دینی فلسفے، نعت وسماع اور مذہبی نغموں کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ معاشرے میں اس طبقے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں عزت اور شرف کا مقام حاصل ہے۔
پچھلے ایک عشرے کے دوران جنین میں صوفیا کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔ حالانکہ مغربی جنین کا علاقہ الیامون صوفیا سے خاص نسبت رکھتا ہے۔
جنین کے ایک صوفی عالم الشیخ اسامہ خمایسہ نے اعتراف کیا کہ جنین میں صوفیوں کے مراکز ویران ہو رہے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک بار پھر اسے زندہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ الیامون میں الحاج عارف السمار کی درگاہ سنہ 1960ء میں کافی عروج پر تھی جہاں صوفیا جمع ہوتے۔ وہاں پر محافل سماع اور نعت خوانی کی مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ میلاد النبی کی تقریبات منعقد کی جاتیں اور ڈھول اور طبلے کی تھاپ پر مختلف مذہبی گیت گائے جاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جنین میں محافل نعت و سماع نئی بات نہیں بلکہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ صوفیہ کے ہاں مروجہ طبلے صلیبیوں کے قبضے سے فلسطین کی آزادی کے بعد بجائے گئے اور وہ آج تک مروج ہیں۔
صوفیا کے مراکز کی ویرانی
الشیخ خمایسہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صوفیا کے بارے میں زیادہ تر لوگوں نے غلط فہمیاں مشہور کر رکھی ہیں۔ تصوف کو جھل مشائخ کا طریقہ کار، شرک، قبر پرستی یا رسول کی پرستش جیسے غیراسلامی طریقوں سے ساتھ جوڑ کرانہیں متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت میں یہ سب الزامات اور اتہامات تصوف پر’ظلم‘ کے مترادف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سلسلہ ہائے تصوف صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ شام، عراق، یمن اور کئی دوسرے ممالک میں کسی دور میں عروج پر رہے ہیں۔ اس کے عروج کی وجہ ان سلسلہ کی باگ ڈور کا علماء کے ہاتھ میں ہونا تھا۔ فلسطین میں جنین، نابلس، الخلیل، غزہ اور کئی دوسرے شہروں میں صوفیا کے مراکز تھے۔ ان میں سے اب بہت کم باقی بچے ہیں۔ طولکرم کے علاقے زیتا میں ’الخلوثیہ صوفی مرکز‘ غزہ میں الشاذلیہ اور القدس میں الافغانیہ درگاہ اب بھی آباد ہیں مگر جنین میں صرف القادریہ مرکز باقی بچا ہے۔
الشیخ خمایسہ سے پوچھا گیا کہ تحریک آزادی فلسطین کے حوالے سے ان کے صوفیا کا طرز عمل اور پالیسی کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک فلسطین کی آزادی اور فلسطین قوم کے سلب شدہ حقوق کی بات ہے تو ہم اپنے وطن کی ایک اینچ زمین بھی غاصب صیہونیوں کو دینے کے روادار نہیں ہیں۔ جہاں فلسطین کے دوسرے طبقات کا پسینہ بہے گا وہاں صوفی سلسلے کے کارکنوں کا خون دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر قطعی بے بنیاد ہے کہ فلسطین کے صوفیا جہاد فلسطین اور تحریک آزادی فلسطین میں دلچسپی نہیں رکھتے یا ہم لوگ قربانیاں نہیں دیتے۔ ہم بھی اسی فلسطینی قوم کا حصہ ہیں اور اپنے حقوق سے کسی قیمت پر دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
فلسطین میں سلسلہ صوفیہ کی تاریخ
فلسطینی مورخ محمد جرادات نے کہا کہ تصوف ایک قدیم طریقہ ہے اور اس کی تاریخ کا تعین کرنا مشکل ہے۔
فلسطین میں خلافت عثمانیہ کے دور میں سلسلہ صوفیہ نے عروج حاصل کیا اور بہت زیادہ ترقی اور پذیرائی حاصل کی تھی۔ ان کے ساتھ لوگوں کی وابستگی دین سے تعلق کی وجہ سے قائم رہی۔ بادشاہوں اور حکمرانوں کے ساتھ ان لوگوں کی خاص قربت رہی جس کی بدولت انہیں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔
انہوں نے کہا کہ القدس میں صوفیہ کے مرکز میں نقش بندیہ سلسلہ کافی مشہور ہوا اور اس کے مراکز آج بھی پرانے بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے قریب موجود ہیں اور اس کی شاخیں نابلس اور اس الخلیل میں پائی جاتی ہیں۔
جنین میں الیامون کے مقام پرقائم القادریہ مرکز موجود ہے۔ پرانے جنین میں قائم اس مرکز میں ہر جمعرات کو حضرت یامین علیہ السلام کے مزار اور ہرسوموارکو الشیخ مبارک کے مزار پر محافل ذکر و سماع منعقد کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں سلفی مسلک کے تقویت پکڑنے کے بعد فلسطین میں صوفیہ سلسلہ کمزور ہوا۔ سلفیہ نے صوفیہ کو شرک سے جوڑنے کی کوشش کی اور لوگوں کے ذہن میں ان کے بارے میں مغالطے پیدا ہوئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صوفیہ اپنی ذات میں مگن رہنے والے لوگ ہیں جنہیں سیاسی اور سماجی زندگی کے چیلنجز سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔