فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات مقبوضہ مغربی کنارے کے شہروں میں فلسطینی اتھارٹی کے محکموں اور افراد کی جانب سے جاری کرپشن پر آواز بلند کرنا زندگی اور موت کا کھیل بن چکا ہے۔ اس کی تازہ مثال رام اللہ کے علاقے بیر زیت کی رہائشی 36 سالہ نیوین العواودہ کی موت سے لی جا سکتی ہے۔
نیوین العواودہ نے کچھ عرصہ پیشتر جرات کا اظہار کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے بعض اداروں اور افراد کی مبینہ کرپشن کہانیوں کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس کی یہ کوشش اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔
جب سے نیوین العواودہ نے فلسطینی اتھارٹی کے بدعنوانی کے اسکینڈلز کا پردہ چاک کیا اس کے بعد نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کے غنڈہ صفت عناصر اس کے درپے ہوگئے تھے۔ پہلے اس کی عزت پرحملے کیے گئے۔ اسے معنوی طورپر شکست دینے کے لیے طرح طرح کے الزامات کے ذریعے بدنام کرنے حتیٰ کہ اس کی عزت و ناموس کو سوالیہ نشان بنا کر اسے کرپشن کی نشاندہی سے باز رکھنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ آخر کار مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اسے جان سے مار دیا گیا۔
نیوین العواودہ کا خون فلسطینی اتھارٹی کے کرپٹ عناصر کی گرنوں پر ہے جنہوں نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے ایک محب وطن خاتون کی جان سے مار ڈالا۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے کرپٹ کلپرٹ کئی ماہ سے نیوین العوادہ کے درپے تھے۔ اس پر اسرائیل کا ایجنٹ ہونے کا بھی الزام عائد کیا گیا مگر وہ اپنے کام سے باز نہیں آئی اور کرپٹ عناصر کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے بعد اسے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ معاملہ یہاں پر ہی ختم نہ ہوا بلکہ مجرموں نے اس کی عزت وناموس کو داغ دار کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ اسے عزت اور غیرت کے نام پر بدنام کرنے کے بعد حال ہی میں پراسرار حالت میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام سیکیورٹی اداروں کو حال ہی میں بتایا گیا کہ نیوین العواودہ اچانک لاپتا ہوچکی ہے۔ پہلے تو فلسطینی ملیشیا نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ جب بار بار العواودہ کے اہل خانہ کی طرف سے مطالبہ کیا گیا تو اس کے بعد فلسطینی ملیشیا نے بیرزیت کے مقام میں ایک کثیرالمنزلہ عمارت میں العواودہ کے فلیٹ پر چھاپہ مارا۔ مگر فلیٹ مقفل تھا۔ سیکیورٹی اہلکار کھڑی توڑ کراندر داخل ہوئے۔ انہیں اندر تو کوئی سراغ نہیں ملا تاہم اس کے اگلے روز نیوین عواودہ کی تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاش اسی فلیٹ کے قریب سے ملی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ العواودہ کی لاش ملنے سے تین سے پانچ روز قبل اسے تشدد کرکے قتل کیا گیا ہے۔
قانون کی عمل داری ایک مسئلہ
انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا کہ اگر فلسطینی قانون کے تحت کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کی سفارش کی گئی ہے تو وہ قانون کہاں ہے؟ کیا قانون پرعمل درآمد خود ایک مسئلہ نہیں؟ اگر فلسطینی قانون میں کرپشن کی شکایت کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے تو وہ نیوین العواودہ کا تحفظ کیوں نہیں کرسکے ہیں؟۔
اپنے ناموں کو صیغہ راز میں رکھتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکنان نے کہا کہ فلسطینی قانون میں انسداد بدعنوانی کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مگر بدقسمتی سے قانون پرعمل درآمد کرتے ہوئے کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کو کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے بڑے بڑے عہدیدار کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں، مگر قانون ان کے خلاف حرکت میں آنے کے بجائے ان کے خلاف شکایت کرنے والوں کا گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال فلسطینی اتھارٹی کے ایک سفیر کی 40 لاکھ ڈالر کرپشن پر دی گئی مضحکہ خیز سزا ہے کہ اسے صرف ایک سال قید اور ایک سو دینار جرمانہ کیا گیا۔
اعتماد کا فقدان
مقبوضہ مغربی کنارے میں انسانی حقوق اور بدعنوانی سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’امان‘ کا کہنا ہے کہ شہریوں کو فلسطینی اتھارٹی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ فلسطین کے سرکاری اداروں میں ملازمت کرنے والے 60 فی صد ملازمین کا خیال ہے کہ اداروں میں پائی جانے والی کرپشن کی نشاندہی ایک مشکل، پیچیدہ بلکہ انتہائی خطرناک اقدام ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری ملازمین کی کرپشن کی نشاندہی سے متعلق کئے گئے ایک سروے کے دوران 54 فی صد مرد ملازمین اور 39 فی صد خواتین نے کرپشن کے نشاندہی کا عزم ظاہر کیا۔
خواتین ملازمات کا کہنا ہے کہ انہیں خطرہ ہے کہ کرپشن کی نشاندہی پرانہیں اداروں اور سرکردہ شخصیات کی طرف سےانتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔
خواتین کا کہنا ہے کہ کرپشن کی نشاندہی پر انہیں اداروں کے سربراہان کی طرف سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ انہیں دباؤ میں رکھنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے خلاف جعلی اسکینڈل اچھالیں گے اگر انہوں نے کرپشن کی نشاندہی کی۔
رپورٹس کے مطابق فلسطین کے سرکاری اداروں میں کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کی تعداد صرف 22.4 فی صد ہے حالانکہ بڑی تعداد میں ملازمین کو اداروں اور عہدیداروں کی بدعنوانی کا علم ہوتا ہے۔ معلومات ہونے کے بوجود 77.6 فی صد نے کسی قسم کی کوئی شکایت انتقامی کارروائی کے خوف سے نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق کرپشن کی شکایات نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے درست سمت میں کارروائی نہ کرنا بھی ہے۔ نام نہاد قانون نافذ کرنے والے ادارے الٹا شکایت کرنے والوں کو کیسز میں الجھا دیتے ہیں جس کے باعث نچلی سطح پر ملازمین اور عام شہریوں میں اداروں پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ 61 فی صد ملازمین کا کہنا ہے کہ انہیں فلسطینی اتھارٹی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد نہیں، 62.7 فی صد کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے کرپشن کی شکایت نہیں کی۔
نیوین عواودہ کیس
مبصرین کا کہنا ہے کہ خاتون انجینیر نیوین العواودہ کو محض اس لیے انتقام کا نشانہ بنایا گیا کہ اس نے فلسطینی اتھارٹی کے سرکاری اداروں میں کرپشن کو بے نقاب کرنے کی جرات کی تھی۔ Â اسے بلیک میل کرنے میں ناکامی کے بعد دباؤ ڈالنے کے لیے بدنام کیا گیا۔ اس کی عزت پر کیچڑ اچھالا گیا اور آخر کار اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ایسے میں بھلا فلسطینی اتھارٹی کے اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی کی شکایت کیسے کی جائے گی۔ یہاں توکرپشن کی نشاندہی زندگی اور موت کا کھیل بن چکا ہے۔ انجینیر نیوین العواودہ کا پراسرار قتل فلسطینی اتھارٹی اور اس کے احتسابی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔