قصبے کی میونسپل کونسل کے چیئرمین محمود اسعد نے بتایا کہ رواں سال میں اجنسینا کی فلسطینی آبادی 800 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ قصبہ فلسطین کے زرعی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں پر بہترین معیار کے زیتون کے باغات موجودÂ ہیں۔ اس کے علاوہ اخروت بھی اس قصبے کی اہم زرعی پیداوار ہے۔ اس قصبے سے ملنے والا زمانہ قدیم کا ایک سکہ ’ تلی درخما‘ کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ’صلعہ‘ نامی پہاڑی چوٹی اور الشیخ شعلہ پہاڑ اس قصبے کے دو اہم لینڈ مارک ہیں۔
محمود اسعد نے بتایا کہ قصبے میں بچوں اور بچیوں کا ایک ہی مخلوط اسکول ہے جس میں آٹھویں تک بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اسکول میں 130 طلباء وطالبات زیرتعلیم ہیں۔ یہاں سےفراغت کے بعد بچے قریبی قصبے سبسطیہ کے ہائی اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں۔
نام اور تاریخی پس منظر
مشہور مورخ’باسل کیوان‘ کا خیال ہے کہ ’اجنسینا‘ آرامی زبان کا لفظ ہے۔ یہ نسل اورجنس کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک تاریخی نام ’جنسانیا‘ بھی ملتا ہے جس کا مطلب ’بیری کا پھل‘ بتایا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ یہ قصبہ اپنی زراعت کے حوالے سے زمانہ قدیم سے مشہور ہے۔ یہاں کے باشندے صدیوں سے اسی جگہ سکونت پذیر چلے آرہے ہیں۔ ان کے جدی پشتی خاندانی سلسلے اسی قصبے میں ملتے ہیں۔
نام کے حوالے سے ایک اور روایت بھی ملتی ہے۔ وہ یہ کہ اس کا نام’جنۃ النساء‘ تھا۔ یہاں کے چشمے بھی بہت مشہور ہیں۔ سبسطیہ قصبے سے آئی ملکہ ھلانیا کا یہاں پر ایک حمام ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک باغ تھا۔ زیتون، اخروٹ کے پھلوں اور چشموں کی بہتات کی بدولت اسے جنۃ النساء قراردیا جانے لگا۔
اجنسنیا کے ضمن میں ایک مشہور ٹاؤن’ دیر حمید‘ کہلاتا ہے۔ یہ جگہ 14 قبل مسیح سے آباد ہے اور کہا جاتا ہے یونان کے عہد میں یہاں لوگ رہا کرتے تھے۔ اس کے بعد یہاں پر فاطمی دور کی حکومت کے آثار بھی ملتے ہیں۔
کیوان کا کہنا ہے کہ اجنسینا میں چار اہم قبائل آباد ہیں۔ کیوان، حجۃ، الشایب اور کائد کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ یہ چاروں قبائل عثمانی خلافت کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
تہذیب وثقافت
اجنسنیا میں کئی اہم تاریخی مقامات ہیں جو قصبے کے لینڈ مارک کہلاتے ہیں۔ ان میں’الشیخ شعلہ‘ نامی ایک پہاڑی ٹیلہ ہے جہاں ایک قلعے کی باقیات موجود ہیں۔ یہ قلعہ یونانی دور میں تعمیر کیا گیا۔ یونانی دور کا ایک معبد بھی اپنی یاد دلاتا ہے۔ یہاں پر دو معبدوں زیوس اور افردیت کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی۔اسلامی دور میں اس کی مرمت کی گئی اور اس معبد کی دیواروں اور پتھروں کو محفوظ بنایا گیا۔
فلسطینی مورخ نے اپنی کتاب’اجنسنیا ماضی اور حال‘ میں لکھا ہے کہ فرنگیوں کے دور میں اجنسنیا کا پڑوسی قصبہ سبسطیہ ایک تاریخی فوجی کیمپ کا درجہ اختیار کرگیا تھا۔ تاہم اجنسینا میں واقع معبد کی تعمیر الناصر صلاح الدین ایوبی کے دور میں کی گئی۔
معبد کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ عثمانی خلافت میں ملتا ہے۔ یہ وادی شعیر میں الحفاۃ/سیف نامی لڑائی کے دوران متاثر ہوا۔ الحفاۃ نامی گروپ شکست کھا کر یہاں سے نکلا مگر لڑائی کے نتیجے میں معبد کو نقصان پہنچا۔
اس کا ایک چھوٹا سا حجرہ آج بھی موجود ہے۔ اس کے ایک طرف ایک بڑا پانی کا کنواں ہے۔ مغرب کی سمت میں ایک مزار ہے جو دو سو سال پرانا بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹا مصلیٰ ہےجس میں دس افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔