الخلیل (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کے ایک متوسط کتب خانے میں تصنیف تالیف کے لیے کتب کی ورق گردانی کرنے والے 80 سالہ بزرگ کو فلسطینی قوم ’پروفیسر‘ امیر عبدالعزیز رصرص‘ المعروف ابو انس کے نام سے جانتی ہے۔
جی ہاں پروفیسر ابو انس کا شمار فلسطین کے علمی ، دینی اور تحریکی خانوادوں میں ہوتا ہے۔ علم اور تحریک حریت سے وابستگی انہیں ورثے میں ملی اور انہوں نے بھی اپنی اس علمی و تحریکی میراث کا کما حقہ حق ادا کیا۔ وہ کئی کتابوں کے مولف اور مصنف ہیں اور عمر کے اس آخری حصے میں بھی تحقیق اور حصول علم کا جذبہ انہیں ہمہ وقت بیدار رکھتا ہے۔رپورٹ میں پروفیسر رصرص کی زندگی، ان کی علمی خدمات اور تحریک آزادی کے لیے جدو جہد پر روشنی ڈالی ہے۔ بلا شبہ ان کا شمار فلسطین کے تبحر علم علماء میں ہوتا ہے اور ان کے تلامذہ نہ صرف فلسطین بلکہ دوسرے عرب ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں جو ان کی علم کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔
پروفیسر رصرص ’ابو انس‘ ایک انقلابی فلسطینی لیڈر کے ہاں سنہ 1936ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک انقلابی رہنما تھے جنہوں نے سنہ 1948ء کو فلسطین پر صیہونیوں کے تسلط کے خلاف باعدہ جنگ میں حصہ لیا۔
استاد پروفیسر ڈاکٹر امیر عبدالعزیز ایک ہی وقت میں عالم اور داعی ہیں۔ ایک کامیاب مربی اور پائے کے دانشور اور اسلامی تحریکوں کی ایک علامت ہیں۔ ان کا شمار فلسطین میں اسلامی تحریکوں بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) میں ہوتا ہے۔ حماس کے قیام کے بعد سے وہ جماعت کے فکری ونظریاتی حلقے کا حصہ ہیں۔
ابتدائی زندگی
رصرص سنہ 1934ء کو سنہ 1948ء کی جنگ میں صیہونی مافیا کے ہاتھوں مسمار ہونے والے الفالوجہ قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبدالعزیز احمد صالح رصرص المعروف ’العجام‘ ایک انقلابی رہنما اور عالم دین تھے۔
’نکبہ‘ یعنی فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام کے بعد ان کا خاندان الفالوجہ سے ھجرت کرکے غرب اردن کے شہر الخلیل میں آ بسا۔ انہوں نے وہیں اسی شہر میں بعد ازاں شادی کی۔
نکبہ اور ھجرت کے خونی مناظر آج بھی الشیخ امیر عبدالعزیز رصرص کی آنکھوں میں زندہ ہیں۔ صیہونی جرائم پیشہ مافیا نے جس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ فلسطینیوں کا قتل عام کیا وہ سب کچھ آج بھی انہیں یاد ہے۔ وہ خون کے دریا عبور کرکے الخلیل پہنچے۔
الدوایمہ قتل عام
پروفیسر رصرص کا کہنا ہے کہ نکبہ اور ھجرت کے دوران انہوں نے غاصب صیہونیوں کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کو قتل اور پامال ہوتے دیکھا۔ ان خونی واقعات میں ’الدوایمہ‘ کا قتل عام بھی شامل ہے۔ انہوں نے اس واقعے کا احوال اپنی کتاب ’اسلام اور مسلمانوں کی مختصر تاریخ‘ میں بھی بیان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے گاؤں الفالوجہ میں قیام پذیر تھے جب اسرائیلی جنگی طیاروں نے ان کے گاؤں پر بمباری شروع کردی۔ ہرطرف شہداء کے لاشے اور تڑپتے ہوئے زخمیوں کی آہ وبکا تھی۔ لوگ صیہونی قاتلوں اور جنگی مجرموں کے خوف سے گھروں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں اس واقعے کا عینی شاہد ہیں اور میں اسے کسی صورت میں فراموش نہیں کرسکتا۔ ہم اپنے پیاروں کی لاشوں کو دفن کرسکے اور نہ ہی زخمیوں کی کوئی مدد کر پائے۔ ہرطرف نفسا نفسی کا عالم تھا اور خواتین اپنے بچوں اور دوست دوستوں کو بھول گئے تھے۔ ایک قیامت کا سماں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ لٹے پٹے چند افراد الخلیل کی طرف چل پڑے۔ الفالوجہ اور الخلیل کے راستے میں ایک مسجد ہے اور اسے الدوایمہ کی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ ہم جمعہ کے دن اس مسجد کے پاس پہنچے۔ جمعہ کی نماز سے قبل موذن نے اذان دی۔ ہم نے صفیں سیدھی کیں۔ نماز شروع ہوتے ہیں صیہونی جو پہلے ہی تاک میں گھات لگائے بیٹھے تھے نہتے نمازیوں پر پل پڑے۔ ہر طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ اور مشین گنوں کی اندھا دھند گولیاں نمازیوں کو شہید اور زخمی کررہی تھیں۔
مسجد خون اور شہیدوں کی لاشوں سے بھر گئی۔ خواتین اور بچوں نے بھاگ کر ایک قریبی غار میں پناہ لی مگر صیہونی دہشت گرد ان کا تعاقب کرتے ہوئے وہاں بھی پہنچ گئے اور دسیوں بچوں اور خواتین کا بےرحمی کے ساتھ قتل عام کیا گیا۔
الشیخ رصرص کہتے ہیں کہ ہم زندہ بچ جانے والے بھی موت ہی کے منتظر تھے۔ رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر بعض نے چھپ چھپا کر الخلیل کا سفر جاری رکھنے کی کوشش کی۔ میں اپنی آنکھوں سے شہیدوں کی لاشوں کے انبار دیکھ رہا تھا۔
علمی سفر
ڈاکٹر رصرص کے صاحبزادے انس رصرص حماس کے ساتھ منسلک ہیں اور غرب اردن میں جماعت کی سرگرمیوں میں شامل رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کے علمی سفر پر بات کی اور کہا کہ میرے والد کو علم سے عشق کی حدت تک محبت ہے۔ انہوں نے تمام علمی مدارج بھی ممتاز نمبروں کے ساتھ طے کیے۔ سنہ 1964ء میں جامعہ دمشق میں داخلہ لیا اور الشریعہ کالج سے فارغ التحصیل ہوئے۔ وہاں انہوں نے ڈاکٹر محمد المبارک، ڈاکٹر فتحی الدرینی اور ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی جیسے جید علماء کرائم سے کسب فیض کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ دمشق سے فراغت کےبعد انہوں نے سرکاری اسکولوں میں اسلامیات کے مضمون میں تدریس شروع کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مصر کی جامعہ الازھر میں بھی داخلہ لیا اور سنہ 1975ء کو بہترین نمبروں کے ساتھ ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ سنہ 1977ءمیں انہوں نے جامعہ الازھر سے فقہ المقارن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اور سنہ 1990ء میں جامعہ النجاح میں لیکچرار کے طور پر خدمات انجام دینا شروع کردیں۔
مشقت بھرا سفر
سرکردہ عالم دین الشیخ امیر رصرص کی زندگی مشکلات سے بھرپور ہے۔ ان کا تحصیل علم کا دور 22 سال پر محیط ہے جو مشقتوں اور مشکلات سے بھرپور ہے۔ وہ تدریس کے ساتھ ساتھ الخلیل، رام اللہ اور نابلس میں اپنی علمی خدمات سے عوام کو روشناس کرتے رہے۔
جامعہ الازھر سے فراغت کے بعد انہوں نے نابلس کی جامعہ النجاض میں تدریسی خدمات انجام دینا شروع کیں اور مسلسل 35 سال یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔ اس دوران وہ جامعہ میں شریعہ کالج کے ڈین مقرر ہوئے اور اسلامیات کے شعبے کے چیئرمین بھی رہے۔ ان سے تحصیل علم کرنے ان سے فیضیاب ہونے والے سیکڑوں طلباء نے فلسطینی جامعات کے مقالے ان سے منظور کرائے۔
فلسطینی مجلس قانون ساز کےاسپیکر ڈاکٹر عزیز دویک کا کہنا ہےکہ مجھے خوشی ہے کہ میں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ پروفیسر رصرص کی رفاقت میں بسر کیا۔ وہ 40 سال سے فلسطین میں علم کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں دینی علوم کے ماہر عالم اور داعی ہیں۔ فقہی علوم اور تصنیف وتالیف میں بھی فلسطین میں ان کے پائے کا کوئی عالم موجود نہیں۔
انہوں نے فقہ، اسلامی تاریخ، ثقافت، اسلامی نظریات اور کئی دوسرے موضوعات پر قلم اٹھایا اور علم کے موتی بکھیرے۔ تاریخ اسلام کے موضوع پران کی ایک کتاب بیروت سے شائع ہوئی جس کا انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا۔ ان کا پورا خاندان اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) سے وابستہ ہے۔ ان کے بڑے صاحبزادے انس حماس کے رہنما ہیں اور جماعت سے وابستگی کی پاداش میں وہ 15 سال تک مسلسل صیہونی زندانوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلتے رہے ہیں۔