رام اللہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی محکمہ امور اسیران کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2015ء کے بعد اب تک اسرائیلی پارلیمنٹ سے فلسطینی اسیران پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے 13 ظالمانہ قانون منظور کیے گئے۔
ان نئے اور کالے قوانین میں اسیران کے حقوق سلب کرنا، ان پرنئی اور بے جا پابندیاں عائد کرنا اور اسیران پر طاقت کا وحشیانہ استعمال جیسے حربوں کی منظوری شامل ہے۔فلسطینی محکمہ اسیران کے چیئرمین عیسیٰ قراقع نے رام اللہ میں جمعہ کے روز ایک نیوز کانفرنس کے دوران سن دو ہزار پندرہ کے بعد فلسطینی اسیران کے خلاف منظور کیے گئے صہیونی ریاست کے قوانین کی تفصیلات بیان کیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق عسیٰ قراقع کا کہنا ہے کہ صہیونی پارلیمنٹ کی جانب سے جو نئے قوانین منظور کیے گئے ان کا اصل ہدف اور مقصد اسیران پر قدغنیں عائد کرنا اور ان کے حقوق پامال کرنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اسیران پر قدغنوں اور ظالمانہ قوانین میں صہیونی ریاست کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں پیش پیش رہی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ صہیونی پارلیمنٹ کو فلسطینی اسیران کے خلاف اور عام فلسطینی شہریوں کے خلاف قانون سازی کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔
گذشتہ برس اسرائیلی پارلیمنٹ میں جو قانون منظور کیے گئے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ بعض قوانین منظور کیے گئے اور بعض پر بحث کی گئی مگران کی منظوری معرض التواء میں رکھی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا Â گیا ہے کہ سنہ 2015ء کے بعد صہیونی ریاست نے پارلیمنٹ کے ذریعے فلسطینی اسیران پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے 120 مسودہ ہائے قانون پیش کیے۔ ان میں 30 اب بھی منظوری کے مراحل میں جب کہ 13 قوانین کی باقاعدہ پارلیمنٹ سے منظوری دی گئی
ذیل میں ان چند قوانین کی تفصیلات پیش ہیں۔
جبری خوراک دینے کا قانون
صہیونی پارلیمنٹ نے بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی اسیران کی بھوک ہڑتال زبردستی ختم کرنے کے لیے ایک نیا قانون منظور کیا جسے’جبری خوراک دینے کا قانون‘ قرار دیا گیا۔ یہ قانون 14 جون 2015ء کو منظور کیا گیا اور 30 جولائی 2015ء کو نافذ کیا گیا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں بالخصوص ریڈ کراس اور بین الاقوامی ڈاکٹر فیڈریشن نے قیدیوں کو زبردستی خوراک دینے کے قانون کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے واضح کیا کہ بھوک ہڑتال کرنے والے کسی قیدی کو زبردستی خوراک دینے سے اس کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
سنگ باری پر مقدمہ چلانے کا قانون
فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کی جانب سے اسرائیلی فوج پر سنگ باری کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔
صہیونی پارلیمنٹ نے فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کی جانب سے اسرائیلی فوج پر سنگ باری کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔ صہیونی پارلیمنٹ نے 21 جولائی 2015ء کو ایک مسودہ قانون کی منظوری دی جس میں سنگ باری کے الزام میں گرفتار فلسطینی شہریوں حتیٰ کہ بچوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چلانے اور انہیں قید اور بھاری جرمانوں کی سزائیں دینے کی منظوری دی گئی۔
اس نام نہاد قانون کی رو سے کسی بھی فلسطینی شہری کو 10 سال قید کی سزا اور جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ ثابت ہوجائے کہ سنگ باری قتل کے ارادے سے کی گئی ہے تو اس پر نیا قانون 11 اکتوبر کو منظور کیا گیا جس میں سنگ باری پر 20 سال قید کی سزا رکھی گئی۔
سنگ باری کی سزا مزید سخت کرنے کا قانون
دو نومبر 2015ء کو اسرائیلی کنیسٹ نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی۔ صہیونی وزیر انصاف ایلیت شاکید کی طرف سے پیش کیے گئے اس قانون میں بیت المقدس میں سنگ باری کی سزا مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس قانون کے تحت کسی سنگ باری کی سزا دو سال سے بڑھا کر چار کردی گئی، ریاستی انشورینس کے حقوق سلب اور متاثرہ صہیونی آباد کاروں کو ہرجانہ ادا کرنے کا قانون پاس کیا گیا۔
اس قانون کی رو سے سنگ باری کرنے والے شہری کے پورے خاندان کو ملنے والی سرکاری مراعات بہ شمول معذوری الاؤنس، تعلیم، صحت اور سوشل سیکیورٹی کی سہولت ختم کردی گئی۔
14 سال سے کم عمربچوں کے ٹرائل کا قانون
یہ قانون 25 نومبر 2015ء کو اسرائیلی پارلیمان میں پیش کیا گیا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی 14 سال یا اس سے کم عمر فلسطینی بچے کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانے کی اجازت دی گئی۔
اس نام نہاد قانون کی روس سے 12 سال کی عمر کے بچے کو بھی مجرم قرار دینے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم اس میں یہ شق رکھی گئی کہ اس کے خلاف مقدمہ چودہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد شروع کیا جائے گا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے صہیونی ریاست کے اس ظالمانہ قانون پر بھی شدید تنقید کی اور اسے عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
شبے کی بنیاد پرجسمانی تلاشی کا قانون
اسرائیلی پارلیمنٹ کی آئینی کمیٹی نے 19 اکتوبر 2015ء کو ایک نام نہاد قانون منظور کیا جس میں پولیس کو راہ گیر فلسطینیوں کو بغیر کسی وجہ اور شک کے تلاشی لینے ضرورت پڑنے پراسے نیم عریاں کرکے چھان بین کرنے کا بھی اختیار دیا گیا۔
انٹیلی جنس اداروں کو تشدد کی کھلی چھٹی
اسرائیلی کنیسٹ نے 25 جون 2015ء کو ایک مسودہ قانون کی منظوری جس کے تحت تفتیشی پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کو یہ اختیار دیا کہ وہ پانچ سال تک کسی بھی فلسطینی قیدی کی مدت اسیری میں اضافہ کرنے کے مجاز ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں سے قیدیوں سے تفتیش کے لیے آواز اور تصویر کی توثیق Â کی شرط ختم کردی گئی۔
اس قانون نے فلسطینی اسیران پر ہولناک تشدد کا دروازہ کھول دیا۔ پولیس اور فوج کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ اعتراف جرم کرانے کے لیے کسی بھی قیدی پر تشدد کے تمام حربے استعمال کرسکتے ہیں۔
پھانسی کی سزا بحال کرنے کا قانون
اسرائیل کے انتہا پسند سیاست دان آوی گیڈور لائبرمین کے صہیونی ریاست کے وزیر دفاع منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں ایک مسودہ قانون دوبارہ پیش کیا گیا۔ اس قانونی مسودے میں اسرائیلیوں کے قتل میں ملوث فلسطینیوں کو سزائے موت دینے کی سفاش کی گئی تھی۔
یہ متنازع مسودہ قانون ’اسرائیل بیتنا‘ نامی گروپ کی طرف سے پیش کیا گیا۔اس سے قبل یہ قانون سنہ 2015ء میں کابینہ میں پیش کیا گیا تھا۔ کابینہ نے اس قانون پربحث کے لیے خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔
نام نہاد انسداد دہشت گردی قانون
اسرائیلی پارلیمنٹ نے نام نہاد انسداد دہشت گردی قانون 15 جون 2016ء کو کثرت رائے سے منظور کیا۔ اس قانون کے تحت مزاحمتی کارروائیوں میں ملوث فلسطینیوں کو 25 سال قید کی سزا کی منظوری دی گئی۔ اس کے علاوہ کسی بھی فلسطینی تنظیم کے سربراہ کو 15 Â سال قید کی سزا کی سفارش کی گئی۔ اس کے علاوہ کسی بھی فلسطینی قیدی کی سزا میں کمی کے لیے صدر کو حاصل اختیارات ختم کیے گئے سزا میں تخفیف کا اختیار کابینہ کو اس شرط پر دیا گیا کہ اگر عمر قید کا سزا یافتہ فلسطینی اپنی اسیری کے 15 سال قید کاٹ چکا ہے تو کابینہ اس کی سزا میں تخفیف کی مجاز ہوگی ورنہ نہیں۔
کم سن فلسطینی بچوں کے لیے کڑی سزائیں
اسرائیلی کنیسٹ میں گذشتہ برس ایک نیا مسودہ قانون منظور کیا گیا جس میں 14 سال Â سے کم عمر کے فلسطینی بچوں کو مزاحمتی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں 3 سال قید کی سزا کی منظوری دی گئی۔
فلسطینی اسیران کا پنشن اور معذوری الاؤنس بند
گذشتہ برس اسرائیلی پارلیمنٹ کی آئینی کمیٹی نے ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دی گئی جس میں قرار دیا گیا ہے کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں سے تعلق فلسطینی اسیران کے معذوری اور ریٹائرمنٹ الاؤنس بند کیے گئے۔
اسی قانون کے تحت اندرون فلسطین سے تعلق رکھنے والے ایسے فلسطینی جو اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کے مرتکب پائے جائیں انہیں وراثت کے حقوق سے بھی محروم کیا جاسکے گا۔
موبائل فون کے استعمال کی روک تھام Â کا قانون
گذشتہ برس اسرائیلی پارلیمنٹ میں داخلی سلامتی کے وزیر کی جانب سے ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا جس میں پارلیمنٹ سے جیلوں میں جدید مواصلاتی آلات نصب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس قانون کے نفاذ کا مقصد جیلوں میں موجود فلسطینی اسیران کے پاس موبائل فون پکڑنے کے لیے جدید آلات کا استعمال ہے۔ یہ قانون بھی منظور کیا گیا اور پہلے مرحلے میں اس قانون کی منظوری کے بعد ایچل اور نفحہ جیلوں میں جدید آلات نصب کرنا اور فلسطینی اسیران کو موبائل کی سہولیات سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
قیدیوں پر تشدد کی اجازت کا قانون
صہیونی پارلیمنٹ میں گذشتہ برس فلسطینی اسیران کے خلاف منظور ہونے والے قوانین میں فلسطینی اسیران Â پرتشدد کی اجازت دینے کا قانون بھی شامل تھا۔ اس قانون کے تحت اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینی اسیران کی تصاویر اور آواز کی توثیق کے لیے پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو اسیران پر تشدد کی اجازت دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قانون کے تحت اعترافات کے حصول کے لیے قیدیوں کو اذیتیں دینےکا حق دیا گیا اور تفتیش کاروں کو مزید پانچ سال تک اپنے جرائم کو خفیہ رکھنے کا حق دیا گیا۔
اسیران کو بنیادی اشیاء سے محروم رکھنے کا قانون
صہیونی انتظامیہ کی جانب سے گذشتہ برس ایک نیا قانون منظور کیا گیا۔ اس قانون کا اطلاق جزیرہ نما النقب کی جیل میں کیا گیا۔ اس قانون کے تحت فلسطینی قیدیوں کے اہل خانہ پر پابندی عائد کی گئی کہ وہ تین ماہ سے کم عرصے میں اپنے اسیر اقارب کو کپڑے اور دیگر ضروریات فراہم نہیں کرسکیں گے۔
سردیوں کے موسم میں صرف 12ویں مہینے میں اسیران کو گرم کپڑے مہیا کرنے کی اجازت دی گئی۔
اسیران سے ملاقاتوں کا عرصہ محدود کرنے کا قانون
گذشتہ برس فلسطینی اسیران کے خلاف منظور کردہ قوانین میں اسیران کے اقارب کے ساتھ ملاقاتوں کو محدود کرنا بھی شامل ہے۔ یہ قانون انسانی حقوق کی تنظیم ریڈ کراس پر بھی پابندیوں کے لیے منظور کیا گیا کیونکہ اسیران کے ساتھ ان کے اقارب کی ملاقاتوں کا اہتمام کرانے میں ریڈ کراس کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت کسی بھی فلسطینی اسیر سے اس کا کوئی رشتہ دار یا دوست صرف دو ماہ میں ایک بار ہی ملاقات کرسکتا ہے۔
اسیران کے اہل خانہ کے معاوضے بند کرنے کا قانون
حال ہی میں صہیونی ارکان کنیسٹ نے پارلیمنٹ میں ایک نیا مسودہ قانون پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو ملنے والے بجٹ کا ایک بڑا حصہ فلسطینی اسیران اور شہداء کےاہل خانہ کو فراہم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ فلسطینی اتھارٹی کو فراہم کی جانے والی رقوم اور ٹیکسوں میں اتنی رقم کی کٹوتی کا حکم دے جتنی فلسطینی اتھارٹی اسیران اور شہداء کے اہل خانہ کو فراہم کررہی ہے۔ مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ اسیران اور شہداء کے اہل خانہ کی مالی امداد ’دہشت گردی‘ کی مالی معاونت کے مترادف ہے۔