مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی تجزیہ نگار، مسجد اقصیٰ اور القدس کے امور کے ماہر جمال عمرو نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی اور مقبوضہ بیت المقدس کے محاصرے کے پیچھے ایک گہری سازش ہے۔ انہوں نے غزہ کی پٹی کے عوام کو مشکلات میں ڈالنے کی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ محمود عباس کی مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی پر خاموشی اور القدس پر صیہونی قبضے کے حوالے سے لاپرواہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ قوم کے کلیدی نوعیت کے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔جمال عمرو نے ان خیالات کا اظہار ایک انٹریو میں کیا۔ ان کا کہنا تا کہ فلسطینی بیداری قومی عزم واسقلال کا راز ہے اور اسی عزم کے ذریعے غزہ اور القدس کا محاصرہ ختم کیا جاسکتا ہے۔
غزہ اور القدس کا محاصرہ
ایک سوال کے جواب میں جمال عمرو کا کہنا تھا کہ پرانے بیت المقدس پر صیہونی ریاست کا تسلط اور غزہ کی پٹی کا محاصرے کا آپس میں گہرا ربط ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی اور القدس کے محاصرے کے درمیان معمولی سا فرق ہے۔ غزہ کی پٹی کے محاصرے میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی ، محمود عباس اور وزیراعظم رامی الحمد اللہ کھلے عام شریک ہیں جب کہ القدس کے محاصرے میں صدر عباس اور ان کے مقربین خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگا کا کہنا تھا کہ پرانے بیت المقدس کی فلسطینی آبادی سنگین مشکلات کا شکار ہے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود القدس کے باشندے پرانے بیت المقدس کے بازاروں سے خریداری پر قائم ہیں چاہے انہیں اس کی جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ یہ طرز عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی قوم اپنے خلاف ہونے والی سازش کے حوالے سے بیدار ہے، مگر دوسری طرف صدی کی ڈیل کی امریکی سازش پر فلسطینی اتھارٹی مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔
انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے دوغلے پن کی مذمت کی اور کہا کہ غزہ کی پٹی فلسطینی مزاحمت کاروں کا مرکز ہونے کے ساتھ صیہونی غاصب ریاست کے سامنے مزاحمت کا مضبوط محاذ ہے۔
عزم استقلال قومی بیداری کا راز
مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے فلسطینی تجزیہ نگار جمال عمرو نے کہا کہ صیہونی ریاست اس وقت غزہ کی پٹی اور بیت المقدس پر اپنی رعونت کا استعمال کررہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو غزہ اور القدس کے عوام کے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کی دلچسپی اور تمام تر توجہ غرب اردن میں یہودی آباد کاروں اور غاصبوں کو تحفظ دلانا ہے۔
جمال عمرو کا کہنا تھا کہ غزہ اور القدس صیہونی ریاست کے پروگرام کے سامنے ایک بھاری پھتر ہے۔ فلسطینی قوم زندہ اور بیدار ہے اور وہ دشمن کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ صیہونی ریاست کے سامنے پورے عزم کے ساتھ مزاحمت جاری رکھنا ہی عزم استقلال کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اقتصادی اور سیکیورٹی کے پہلو سے مسجد اقصیٰ کا محاصرہ کررہی ہے۔ بیت المقدس میں فلسطینی تاجروں پر پابندیاں اور یہودی کاروباری طبقے کو سہولتیں دی جا رہی ہیں۔
مسجد اقصیٰ صبح وشام صیہونیوں سے بھری رہتی ہے۔ قبلہ اوّل کے تمام راستے صیہونیوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ القدس کے فلسطینی باشندوں پرعرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ وہ اپنے تحفظ کے لیے کوئی چیز لا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے گھروں کی تعمیرو مرمت کرسکتے ہیں۔
القدس اور اس کے باشندوں پر لگائی جانے والی صیہونی ضربیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔