فلسطین میں ابلاغی، اشاعتی اور نشریاتی اداروں کے خلاف مکروہ یلغار صیہونی ریاست کے’ احمق‘ ہی کرسکتے ہیں۔ گذشتہ بدھ کو غرب اردن کے 8 ابلاغی اداروں، ٹی وی چینلوں اور میڈیا پروڈکشن ہاؤسز پر بولے جانے والے دھاوے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ صیہونی ریاست میڈیا کی آزادی سے سخت خوف کا شکار ہے۔
اسرائیلی یلغار کی زمانی اہمیت
فلسطینی مبصرین یہ استفسار کرتے ہیں کہ آیا اسرائیل کو ایسی کیا مشکل پیش آئی کہ اس نے ایک ہی ھلے میں غرب اردن میں نشریاتی اور اشاعتی خدمات انجام دینے والے 8 ادارے سیل کردیے۔ یہ آٹھ ادارے فلسطین اور بیرون ملک ایک درجن ٹی وی چینلوں کو خدمات فراہم کررہے تھے۔
فلسطینی صحافی اور تجزیہ نگار محمد اللحام نے کہا کہ صیہونی فوج نے جس بے ظالمانہ طریقے سے میڈیا ہاؤسز پر یلغار کرکے ان کی تالا بندی، ان میں توڑپھوڑ اور عملے کو زدو کوب کیا ہےاس سے صیہونی دشمن کا بغض، حسد، خوف اور غیرمسبوق نسل پرستی کی عکاسی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقامی فلسطینی میڈیا ہاؤسز کی بندش کی ایک زمانی اہمیت ہے۔ وہ یہ کہ فلسطین میں حال ہی میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور فتح کے درمیان گیارہ سالہ انتشار کے بعد صلح کا تاریخی معاہدہ طے پایا ہے۔ بند کیے گئے تمام فلسطینی ادارے فلسطینیوں میں مصالحت کی ترویج میں سرگرم تھے۔ ان اداروں کی جانب سے فلسطینی مفاہمت اور فلسطین میں قومی حکومت کے قیام کی مساعی کی بھرپور حمایت کی گئی تھی۔ یہ یلغار ایک ایسے وقت میں کی گئی جب اسرائیلی کابینہ نے اپنے ایک حالیہ اجلاس میں روایتی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک غزہ کی پٹی کی مزاحمتی تنظیمیں ہتھیار نہیں پھینکیں گی فلسطینی اتھارٹی سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں جتنے ابلاغی ادارے بند کیے گئے ہیں ان میں سے بیشتر کسی نا کسی طرح حماس یا اسلامی جہاد کے ساتھ قربت رکھتے ہیں۔ بعض ایران اور کچھ آزاد ٹی وی چینل ہیں۔ ان تمام میڈیا اداروں کی جانب سے فلسطینیوں میں مصالحت کو ایک جشن کے طور پرمنایا مگر صیہونیوں کو فلسطینی قوم کی خوشیاں کیسے گوارا ہوسکتی ہیں۔
نسل پرستانہ قذاقی
القدس ٹی وی چینل کے نامہ نگار اکرم النتشہ کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں میڈیا ہاؤسز کے خلاف صیہونی ریاست کی یلغار باعث حیرت نہیں۔ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے جس نے اپنا مکروہ اورتاریک چہرہ دنیا سے چھپانے کے لیے نام نہاد جمہوریت کا لبادہ اوڑ رکھا ہے۔
ایک نسل پرست ریاست کو سب سے بڑا خطرہ کسی فوج سے نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ سے ہوتا ہے جو قدم قدم پر اس کی نسل پرستی کے پردے چاک کرتا اور اسے دنیا کے سامنے بے نقاب کرتا ہے۔ سنہ 1967ء کے بعد صیہونی ریاست کی نسل پرستی کی شدت میں اس لیے بھی اضافہ ہوا کہ اس نام نہاد ریاست نے قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی ریاست فلسطین میں پیشہ وارانہ طریقے سے ابلاغ کی خدمات انجام دینے والے اداروں کو اپنے لیے پیغام موت سمجھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی ریاست اندر سے مکمل طور پر کھوکھلی ہے جب کہ فلسطین کے ابلاغی اداروں کا ایک ایک اقدام فلسطینی قوم کو مضبوط اور صیہونی ریاست کی گرتی دیواروں کے لیے دھکا ثابت ہو رہا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ھانی ابو سباع کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں آٹھ میڈیا اداروں کی بندش سے اسرائیل نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ غرب اردن میں عملا فوجی عمل داری فلسطینی اتھارٹی کی نہیں بلکہ صیہونی ریاست کی ہے۔ چاہے حماس اور فتح کے درمیان ایک معاہدہہ طے پایا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں غرب اردن میں سیکیورٹی کا انتظام کے انتظام و انصرام سے محروم ہیں۔
ابو سباع نے کہا کہ صیہونی فوج نے دراصل اسرائیلی وزیر بینیٹ کے اس بیان پر عمل درآمد کیا ہے جس میں جس میں اس نے فلسطینیوں میں مصالحت کے بعد غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ فلسطینی قوم کی آزادی کے حق کو سلب کرنے والی صیہونی ریاست نے نام نہاد الزامات کے تحت فلسطین کے ابلاغی اداروں پر ایک نئی یلغار مسلط کی ہے۔
مقامی فلسطینی شہریوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ صیہونی فوج نے غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں 30 فوجی گاڑیوں کے ساتھ میڈیا پروڈکشن کمپنیوں کے دفاتر پر دھاوے بولے۔ دفاتر میں گھس کر عملے کو زدو کوب کیا، توڑپھوڑ کیÂ اور بعد ازاں گن پوائنٹ پر ان اداروں کو چھ ماہ کے لیے سیل کرنے کے نوٹس چسپا کردیے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان افیخائے ادرعے نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ "اسرائیلی فوج اور سکیورٹی فورسز کی مشترکہ کارروائی میں میڈیا اور پروڈکشن سے تعلق رکھنے والی 8 فلسطینی کمپنیوں پر چھاپہ مارا گیا جن پر شبہ تھا کہ وہ دہشت گردی پر اکسانے اور اس کو سراہنے کے حوالے سے مواد نشر اور ارسال کر رہی ہیں”۔
صیہونی فوج نے الخلیل، رام اللہ، بیت لحم اور نابلس میں ٹرانسمیڈیا، پال میڈیا، رامساٹ، فلسطین الیوم ٹی وی چینل، الاقصیٰ چینل، المنار، شیا ٹوڈے، القدس، المیادین اور کئی دوسرے اداروں کے مراکز بھی سیل کردیے۔
دوسری جانب فلسطینی حکومت کے سرکاری نے فلسطینی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے بیان میں کہا کہ "صیہونی افواج نے فلسطینی شہروں میں ان میڈیا دفاتر کے پر دھاوے بول کر تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں”۔
مذکورہ کمپنیاں کئی غیر ملکی ، عربی اور فلسطینی سیٹلائٹ چینلوں کو میڈیا سروسز فراہم کرتی ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے الخلیل، بیت لحم، رام اللہ اور نابلس میں ان کمپنیوں کے دفاتر پر چھاپوں کے وڈیو کلپ بھی پوسٹ کیے ہیں۔ کمپنیوں کی بندش کے دوران متعدد فلسطینیوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔