اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹریز کی صہیونیت نوازی کے نتیجے میں انتقام کا نشانہ بننے والی سفارت کار ریما خلف ایک لبنانی سماجی اور انسانی حقوق کارکن ہیں۔ ان کی زندگی کا پورا کیریئر مظلوم اقوام کے حقوق کے لیے جدو دجہد سے عبارت ہے۔ وہ ماضی میں بھی اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جاری نسل پرستی کو بے نقاب کرتی رہی ہیں۔
کرہ ارض پرفوری حل طلب تنازعات میں’قضیہ فلسطین‘ فہرست میں پہلے نمبر پرہے مگر Â اقوام متحدہ کے دوغلے اور ’منافقانہ‘ عملی کردارنے فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھنے والی ہر آواز کو نظر انداز کرکے اپنی غیرجانب داری Â کو غیرمتنازع بنانے کے بجائے متنازع بنا دیا ہے۔ جب اسرائیل کے خلاف دنیا کے کسی کونے سے حق اور سچ کی آواز سنائی دیتی ہے تو یہ نام نہاد ’عالمی منصف‘ چلا اٹھتا ہے کہ ’ہائے یہ کیا ہوگیا؟ کسی نے صہیونی ریاست کی پاک دامنی پر داغ کیوں لگا دیا‘ اس طرح اقوام متحدہ صہیونی ریاست کی دنیا بھر میں پاک دامنی ثابت کرنے میں ’ مصروف عمل‘ ہے۔
اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن برائے Â مغربی ایشیا ’ایسکوا‘ اقوام متحدہ ہی کا ادارہ ہے مگر ’یو این’ کےسیکرٹری جنرل نے اس ادارے کی جانب سے فلسطین میں اسرائیل کے نسل پرستانہ مظالم کو بے نقاب کرنے والی ادارے کی سربراہ کو چلتا کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت نہیں بلکہ اسرائیل کی نسل پرستی کی حمایت کررہے ہیں۔
ریما خلف ’ایسکوا‘ کی ڈائریکٹر تھیں۔ انہوں نے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین قانون کی معاونت سے حال ہی میں فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی۔ اس روپرٹ میں انہوں نے اسرائیل کو نسل پرست اور نوآبادی نظام کی حامل ایک ظالم ریاست قراردیا۔
ان کی اس رپورٹ کے اہم مندرجات پر روشنی ڈالی ہے۔
ریما خلف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کےخلاف نسل پرست (اپارتھائیڈ) پر مبنی نو آبادیاتی نظام کی بنادی رکھی ہے‘۔ ان کے اس جملے نے نہ صرف اسرائیل بلکہ دنیا بھر میں صہیونیت نوازوں کو آگ بگولا کردیا۔ مگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے ’فلسطین پراسرائیلی قبضے کے مسئلے کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل دستاویز قرار دیا ہے‘۔
’ایسکوا میں اسرائیل مخالف رپورٹ کی تیاری‘
اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن برائے Â مغربی ایشیا ’ایسکوا‘ نے یہ رپورٹ رکن ممالک کے تعاون اور مطالبے کے بعد تیار کی۔ رپورٹ کی تیاری میں عالمی شہرت یافتہ دو اہم ترین انسانی حقوق کے مندوبین ساؤتھ الینوی۔ کارپونڈیل یونیورسٹی سے وابستہ سیاسیات کی خاتون پروفیسر ورجینیا ٹیللی Â اور اوقام متحدہ کے سابق انسانی حقوق مندوب برائے مقبوضہ فلسطین رچرڈ فولک نے کلیدی کردار ادا کیا۔
رپورٹ کے اہم نکات
’ایسکوا‘ کی فلسطین میں نسل پرستی کےخلاف جاری رپورٹ کو ’ نسل پرستی (اپارتھائیڈ) انسانیت کے خلاف جرم‘ کا عنوان دیا گیا۔
رپورٹ کے آغاز میں بین الاقوامی قوانین کی رو سے نسل پرستی کی تعریف بیان کی گئی اور نسل پرستی کے خلاف ہونے والے عالمی اقدامات کا ایک جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر ایک نسل دوسری نسل کے باشندوں کے خلاف منظم انداز میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں امتیازی سلوک روا رکھے۔ ان کی املاک کو اپنی ملکیت سمجھے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کردے تو ایسے اقدامات کو نسل پرستی، اپارتھائیڈ قرار دیا جائے گا جسے انسانیت کے خلاف سنگین جرم سے تعبیر کیا جائے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک کی وجہ سے مذکورہ تعریف پر پورا اترتا ہے۔ اس لیے اسے نسل پرستانہ ریاست قرار دیا جاتا ہے۔ صہیونی ریاست نے سنہ 1965ء کے نسل پرستی کے خلاف منظور کردہ معاہدے کی شق 3کی باربار خلاف ورزی کی اور نسل پرستی کا مرتکب ٹھہرا۔ اسی طرح نسل پرستی مخالف معاہدہ روم مجریہ 1973ء اور عالمی فوج داری کے آرٹیکل 7 ایک اور آرٹیکل 2 کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کا مرتکب ہوا ہے۔ ان بین الاقوامی معاہدوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے بعد اسرائیل کو بھی بجا طور پر نسل پرست اور اپارتھائیڈ نظام کی حامل ریاست قرار دیاتا ہے۔
نسل پرستی اور اپارتھائیڈ کی اصطلاح کے استعمال کے ساتھ ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ نسل پرستانہ اور نوآبادیاتی نظام کی مثال جنوبی افریقا میں دیکھی گئی مگر اب یہ نظام وہاں پربھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ جس قسم کے مظاہر اس وقت فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ہاتھوں رونما ہو رہے ہیں۔ جنوبی افریقا میں نسل پرستانہ نظام کے دورمیں ایسا ہی کھیل کھیلا جا رہا تھا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوج داری عدالت کی طرف سے نسل پرستی کو نہ صرف انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے بلکہ نسل پرستی کی واضح الفاظ میں تعریف بھی کی گئی ہے۔ ’آئی سی سی‘ کے اصول کے تحت اگر کوئی ریاست اپنے بنیادی نظام کے ساتھ ظلم، منظم قبضے، نسلی بنیادوں پر امتیاز، کسی ایک گروہ، جماعت یا انسانی طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک برتے تو اسے نسل پرستی اور نوآبادیاتی نظام سے تعبیر کیا جائے گا۔
بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں کو Â ایک ہی قوم یا مملکت کے باشندے کہا جاتا ہے جب کہ اسرائیل ایک الگ حیثیت سے ملک ہے۔ اسرائیل اپنی پوری Â ریاستی میشنری کے ساتھ فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ اقدامات میں ملوث ہے۔ صہیونی ریاست اپنے اقدامات کےنتائج واثرات سے مکمل طور پربے پرواہ ہو کر فلسطینیوں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔
اسرائیل نے ’اپارتھائیڈ نظام‘ کی بنیاد رکھ دی
’ایسکوا‘ کی رپورٹ کا خلاصہ چند جملوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور عالمی ضابطوں، معاہدوں اور اصولوں کی رو سے اسرائیل کے اقدامات نسل پرستی پر مبنی ہیں۔ اسرائیل نے عملی طور پر ’اپارتھائیڈ‘ نظام کی بنیادیں رکھی ہیں جو ایک نسل کے باشندوں کو دوسری نسل کے باشندوں پر غالب کرنے اور دوسری نسل کو مغلوب کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
کچھ دیگر عوامل بھی صہیونی ریاست کی نسل پرستانہ پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیل کا آبادیاتی ڈھانچہ اس انداز میں مرتب کیا گیا ہے اس میں کسی دوسری نسل کے باشندوں کی گنجائش نہیں۔ مخالف نسل[فلسطینیوں] کو عملی طور پردبائےرکھنے کے لیے قانون سازی کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔ اس طرح اسرائیل خود کو ایک یہودی قومی ریاست کے طور پردنیا میں رواج دے رہا ہے،جس میں دوسری اقوام بالخصوص فلسطینی قوم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
صیہونی ریاست Â اپنے اپارتھائیڈ نظام تقسیم کرنے اور قبضہ کرنے کے اصول کے تحت کام کر رہا ہے۔
اس نظام کی رو سے فلسطینی قوم
** سیاسی اور جغرافیائی طور پر اپنا وجود کھو چکی
** Â اسی دعوے کی آڑ میں اسرائیل فلسطینیوں پر اپنا تسلط پھیلانے اور اسے دوام دینے کے لیے کوشاں ہے۔
** فلسطینیوں کے اجتماعی تشخص اور سیاسی وحدت کو تاراج کیا جا رہا ہے تاکہ ظلم کے خلاف فلسطینیوں میں پائی جانے والی مزاحمت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائے۔
** اسرائیل نسل پرستی اور اپارتھائیڈ نظام کے الزام کو مسترد کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ایک جزو سے نمٹنے کے لیےبعض اقدامات پر مجبور ہے۔
** Â مگر بین الاقوامی قوانین کی رو سے اسرائیل کے تمام اقدامات، پالیسیاں اور طرز عمل فلسطینی قوم کے کسی ایک طبقے کے خلاف نہیں بلکہ پوری فلسطینی قوم کے خلاف ہیں۔
** Â فلسطینی اسرائیلی قبضے کے زیرسایہ ایک ایسے نظام کے تحت زندگی گذار رہے ہیں جو فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے طاقت کے تمام حربے استعمال کرنے کو قانونی سمجھتا ہے۔ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو جرم سمجھتا ہے اور آواز اٹھانے کی پاداش میں فلسطینیوں کو جان سے مارنے اور جیلوں میں ڈال کر قید کی طویل المیعاد سزائیں دینے کے لیے سرگرم ہے۔ فلسطینیوں کو اگر ریاست میں کوئی مقام حاصل ہے تو وہ دوسرے یا تیسرے درجے کے انسانوں جیسا ہے۔ اکثریت ہونے کے باوجود فلسطینیوں کو اقلیت سمجھا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے اتنخابی اور جمہوری عمل میں حصہ لینے کا حق نہیں دیا جاتا۔
** مشرقی بیت المقدس میں مقیم فلسطینی آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں، مگر اسرائیلی پالیسیوں کے تحت ان فلسطینیوں کی حیثیت تارکین وطن سے زیادہ نہیں۔مشرقی بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کو جس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا ہے اس کی کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔ تعلیم، صحت، بنیادی حقوق، مکانات کی تعمیر، کاروبار، روزگار، پبلک سروس اور اس جیسے تمام بنیادی حقوق میں فلسطینیوں کو دانستہ طور پر نہ صرف نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ ان پرعرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے ہرطرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ فلسطینیوں کو مکان بنانے کی اجازت نہیں۔ بنے بنائے مکانات مسمار کیے جاتے ہیں۔ کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع یہودیوں کے لیے کھلے ہیں مگر فلسطینیوں کو ایک دوسری نسل کا باشندہ ہونے کا طعنہ دینے کے ساتھ ان پر معاشی پابندیاں مسلط کی جاتی ہیں۔
** دریائے اردن کے مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینی بھی دوسرے شہروں سے کاٹ کر رکھ دیے گئے ہیں۔ غرب اردن کے فلسطینی مشرقی بیت المقدس سے جدا ہیں۔ ان علاقوں پر اسرائیل کا فوجی قانون لاگو کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم غرب اردن میں آباد کیے گئے یہودیوں کو ہرطرح کی مراعات حاصل ہیں۔ چوتھے جنیوا کنونشن میں وضع کردہ اصولوں کی کھلے عام خلاف ورزی غٖرب اردن میں دیکھی جا رہی ہے۔ عالمی اداروں کی مخالفت اور بین الاقوامی برادری کے دباؤ کے باوجود غرب اردن میں دن رات یہودی کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔
** فلسطینی علاقوں سے جبرا لاکھوں فلسطینیوں کوان کے آبائی شہروں اور گھروں سے نکال دیا گیا۔ یہ لاکھوں فلسطینی اندرون اور بیرون ملک جس کسمپرسی کا شکار ہیں وہ ایک الگ موضوع ہے مگر ان خانما برباد فلسطینیوں کو اپنے ملک واپس آنے کا حق نہیں دیا جا رہا۔ ان کے مکانات ، املاک اور اراضی پر اسرائیل نے قبضہ کررکھا ہے اور وہاں پر دنیا سے جمع کرکے یہودی آباد کیے جا رہے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اپنے وطن واپس لوٹنا تو جرم ہے مگر صہیونی ریاست اپنی آبادی بڑھانے کے لیے یہودیوں کو مسلسل غیرقانونی طور پرآباد کیے جا رہا ہے۔
نسل پرستانہ نظام کو توڑنے کے لیے سفارشات
** اقوام متحدہ اوراس کے رکن ممالک Â ایک خصوصی کمیشن قائم کریں جو فلسطینیوں کے خلاف جاری اسرائیلی نسل پرستانہ اقدامات کی روک تھام کے لیے کوششیں کرے۔
** Â فلسطین میں نسل پرستانہ اقدامات کی تحقیق و تدقیق کے لیے عالمی عدالت انصاف سے بھی مشاورت کی جائے۔ اگر اسرئیل واقعتا نسل پرستانہ بنیادوں پرقائم ریاست ہے تو اس کی نسل پرستی کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
** فلسطین میں نسل پرستانہ اقدامات کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کریں۔
** اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ، اسرائیل پر معاشی پابندیاں عاید کرنے، BDS تحریک کی حمایت، نسل پرستی میں ملوث عناصر کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں اور فلسطینی قوم کے خلاف نسل پرستانہ اوراپارتھائیڈ نظام کو ختم کیا جاسکے۔