اسرائیل کی طرف سے سرکاری رد عمل میں فلسطینیوں میں مفاہمت کے حوالے سے سخت مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطینی شہریوں میں یکجہتی اسرائیل کے لیے باعث تشویش ہے کیونکہ صہیونی ریاست کسی صورت میں فلسطینی قوم کی صفوں میں اتحاد کو اپنے مفاد میں خیال نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے پہلے ہی رد عمل میں فلسطینی قومی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہÂ اسے اسی صورت میں تسلیم کرے گا جب اس میں شامل اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اپنے عسکری ونگ کو ختم کرے، اسرائیل کو تسلیم کرے اور ایران کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرے۔
ان تین شرائط پر عمل درآمد کے بعد اسرائیل یہ سوچے گا کہ آیا وہ حماس کے ساتھ کوئی بات چیت کرسکتا ہے یا نہیں۔ قبل ازیں دو اکتوبر کو اسرائیلی حکومت نے قومی حکومت کے وفد کو غزہ ک پٹی میں پہلی بار داخل ہونے کی اجازت دی۔ اتنی بڑی تعداد اور حجم میں غرب اردن سے کسی وفد کی غزہ آمد کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ یہ پیش رفت اسرائیل کی طرف سے کی گئی ہے جس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے لیے غزہ کی پٹی میں حکومتی نظم ونسق سنبھالنا آسان ہوا ہے۔
ویٹو کا اٹھایا جانا
فلسطینی تجزیہ نگار یونی بن مناحیم نے اپنے ایک تجزیاتی مضمون میں لکھا کہ فلسطینیوں میں مصالحت پر اسرائیل کی خاموشی معنی خیز ہے۔ امریکا نے فلسطینیوں میں صلح کو ویٹو نہیں کیا جس کے بعد اسرائیل نے بھی کھل کرحمایت نہ کرنے کے باوجود اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصر اور فلسطینی اتھارٹی کو مفاہمت کو مکمل کرنے کے لیے گرین سگنل دیا۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں میں مفاہمتی عمل آگے بڑھانے کے لیے رام اللہ سے فلسطینی وفد کو غزہ آنے کی اجازت دی۔ اسرائیل کی اس پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ اسرائیل بہ ظاہر فلسطینیوں میں مصالحت کا مخالف تھا مگر اندر خانہ صہیونی ریاست بھی بادل نخواستہ فلسطینیوں میں اتحاد کی پالیسی میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔
فلسطینی تجزیہ نگار ابراہیم حبیب اور ایمن الرفاتی نے کہا کہ فلسطینیوں میں مفاہمت اور مصالحت اب صرف فلسطینیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ عالمی اور علاقائی اتحاد کی شکل اختیار کررہی ہے۔ کیونکہ اس مفاہمت میں ایک طرف تو فلسطینیوں کی باہمی مفاہمت اور مصالحت ہے اور دوسری طرف مصر بھی اس میں شامل ہے۔
ابراہیم حبیب نے کہا کہ اسرائیلی حکومت نے غیراعلانیہ طور پر فلسطینیوں میں مفاہمت کو ایک زمینی حقیقت کے طور پر قبول کیا ہے۔
تجزیہ نگار الرفاتی کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں میں مصالحت خود اسرائیلی ریاست کے مفاد میں ہے۔ فلسطینیوں میں اتحاد کی صورت میں اسرائیل کو غزہ کی پٹی سے درپیش مزعومہ خطرات اب نہیں رہے۔ یوں اسرائیل کو غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اسرائیل کا مفاد
فلسطینیوں میں مفاہمت کا اسرائیل کو کیا فائدہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں اسرائیلی تجزیہ نگار ماضی میں اسرائیل فلسطینیوں کے درمیان اتحاد کی کھل کر مخالفت کرتا رہا ہے۔ اسرائیل نے ایسی حکومت کے ساتھ تعاون سے یہ کہہ کر انکار کیا ک اس میں حماس جیسی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والی تنظیمیں شامل ہیں۔ مگر اب زمینی حالات اور حقائق کافی حد تک بدل چکے ہیں۔
فلسطینی سیاسی امور کے ماہر محمود مرداوی کا کہنا ہے کہ ماضی کی اسرائیلی پالیسی کو دیکھا جائے تو اسرائیل فلسطینیوں میں مفاہمت کوقبول نہیں کرے گا۔ اسرائیل کو یہ پتا ہے کہ بہت سی اقوام نے اس وقت آزادی کی منزل حاصل کی جب انہوں نے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیا۔ فلسطینیوں میں ناچاقی اسرائیل کے مفاد میں ہے۔
الرفاتی نے خبردار کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں میں مفاہمت کا موقع دے کر دراصل حزب لبنانی حزب اللہ کے خلاف جنگ کی تیاری کررہا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل فلسطینیوں میں مفاہمت کو موقع دے کر غزہÂ اور اسرائیل کےدرمیان سرحد پر دیوار کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جنگ کی تیاری، شام کی طرف سے ایران کے بڑھتے خطرات اور زیرتکمیل دیوار کے منصوبوں کے لیے اسرائیل کو غزہ کے محاذ پر جنگ سے گریز کی پالیسی پر عمل درآمد کرنا ہے۔
مخفی تشویش
اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق حماس لبنانی حزب اللہ کی راہ پر چلتے ہوئے ملک کی پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے اور آنے والی حکومت میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنا چاہتی ہے۔
تجزیہ نگار مرداوی کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں میں وحدت نہیں چاہتا کیونکہ اسرائیل کے خیال میں غزہ، غرب اردن اور القدس میں اس مفاہمت کی عمر بہت مختصر ہوگی۔ فلسطینیوں میں اتحاد اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ مگر اسرائیل نے اس مفاہمت میں اس لیے رکاوٹ نہیں ڈالی کیونکہ اسرائیل کو اندازہ ہے کہ فلسطینیوں کی مفاہمت کے پیچھے پوری فلسطینی قوم کی حمایت حاصل ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ حماس لبنانی حزب اللہ کی تقلید پر چل رہی ہے۔ ایک طرف وہ فلسطین کے تمام معاشی اور معاشرتی مسائل اور ذمہ داریوں کی جواب دہ نہیں رہنا چاہتی اور دوسری طرف وہ اپنے سیکیورٹی ڈھانچے کو بھی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔