غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) گذشتہ جمعہ 30 مارچ کو فلسطین بھر میں ’یوم الارض‘ مظاہرے کیے گئے۔ ان مظاہرون میں لاکھوں فلسطینیوں نے حق واپسی کے لیے عظیم الشان ریلیاں نکالیں۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج نے منظم اورغیرمسبوق ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیڑھ درجن فلسطینیوں کو شہید اور ڈیڑھ ہزار کو زخمی کردیا۔
اسرائیلی ریاست کے ایک تجزیہ نگار اورÂ دانشور عمیرہ ھس کا حال ہی میں اخبار ’ہارٹز‘ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ فاضل کالم نگار نے اپنے مضمون کا آغاز غزہ کی پٹی میں ’یوم الارض‘ کے موقع پر ہونے والے احتجاج اور پرامن مظاہرین پر اسرائیلی فوج کے حملے سے کیا ہے۔ صیہونی ریاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے اسرائیلی تجزیہ نگار لکھتا ہے یہ مشرقی بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ جیسے فلسطینی علاقوں میں بسنے والوں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا یکساں برتاؤ ہے۔ جس طرح اسرائیل سنہ 1967ء کو غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس پر قبضے کے بعد فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ انتقامی کارروائیاں کرتا رہا ہے، ویسے ہی وہ لبنانÂ اور غزہ میں کررہا ہے۔عمیرہ ھس لکھتے ہیں کہ غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کے خلاف گولی چلانے سمیت دیگر تمام مکروہ حربوں کے لیے اسرائیلی فوج کو غیرمعمولی اختیارات دیے گئےہیں۔ ان کارروائیوں کو فوج داری کیسز ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے بعض جرائم کا تذکرہ کیا ہے مگر بہت سے واقعات جن میں غزہ میں بہیمانہ قتل عام کیا گیا کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بھی غزہ میں فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کے بعض واقعات کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سنہ 1956ء میں جزیرہ سیناء میں ہونے والا قتل عام بھی شامل ہے۔ سنہ 1957ء میں اقوام متحدہ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ تین اکتوبر 1956ء کو اسرائیلی فوج نے غزہ کے علاقے خان یونس میں 257 نہتے فلسطینیوں کو شہید کیا۔ اس کے بعد 12 اکتوبر کو رفح کے علاقے میں وحشیانہ قتل عام کیا گیا جس میں ایک مصری شہری سمیت 110 فلسطینی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
صحافی اور کارٹونسٹ ’جو ساکو‘ نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر خاکوں کی شکل میں ایک کتاب مرتنب کی۔ اس میں انہوں نے خاکوں کی مدد سے غزہ میں جگہ جگہ فلسطینیوں کی بکھری لاشوں، اسرائیلی فوج کی طرف سے فائرنگ، بے سروسامانی کے عالم میں بھاگتے فلسطینی بچوں اور عورتوں اور ان کا تعاقب کرتے اسرائیلی بندوق بردار دہشت گردوں کی منظر کشی کی گئی ہے۔
تجزیہ نگار یزھار بئیر کا کہنا ہے کہ سنہ 1967ء کے بعد اسرائیل نے غزہ کی آبادی کم کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ فروری 1968ء کو اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم لیوی اشکول نےÂ ایمی گریشن پروگرام کی ذمہ داری عادہ سرانی نامی ایک خاتون کے سپرد کی۔ اس مشن کا مقصد غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو دوسرے عرب ملکوں میں ھجرت پر اکسانا اور انہیں مختلف حیلوں سے فلسطین چھوڑنے کی ترغیبات دینا تھا۔
بئیرکا کہنا ہے کہ ایک ملاقات میں اشکول کے سرانی سے پوچھا کہ اب تک آپ نے کتنے عرب باشندوں کو بیرون ملک ہجرت پر مجبور کیا۔ اس نے جواب میں کہا کہ وہ 40 ہزار خاندانوں کو بیرون ملک بھجوا چکی ہے۔ سرانی نے کہا کہ وہ فی خاندان ایک ہزار لیرہ دیتی رہی ہیں۔ ساتھ ہی اس نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کو وہاں سے نکالنے کے چالیس ملین لیرہ رقم کی ضرورت ہے، اس پر اشکول نے کہا کہ ہاں یہ معقول رقم ہے۔
سنہ 1991ء میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے عوام کو جیلوں میں ڈالنے کی پالیسی میں شدت پیدا کی۔ سنہ 2007ء میں ایہود اولمرٹ کی حکومت نے پورے غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کرتے ہوئے اس کی تمام اطراف سے ناکہ بندی کردی۔ ان پابندیوں کے باعث غزہ کے عوام کو ادویات، خوراک، خام مال اور دیگر درآمدات وبرآمدات پر پابندی عائد کردی۔
سنہ 2008ء اور اس کے بعد کی جنگوں کے دوران اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی پر فوج کو طاقت کے وحشیانہ استعمال کی کھلی چھٹی دی۔ گھروں میں سوئے ہوئے خاندانوں پر بمباری پرکرکے نہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔
نہتے فلسطینیوں کو اجتماعی طورپر موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات ان گنت ہیں۔ سنہ 2008ء اور اس کے بعد مسلط کی گئی جنگوں کے دوران صیہونی فوج نے نہتے فلسطینیوں کا بے دریغ اور اجتماعی قتل عام کیا ہے۔