مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کا علاقہ غزہ کی پٹی اسرائیلی ریاست کی طرف سے عائد کردہ معاشی پابندیوں کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض مبصرین غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ کے خطرات پر بھی مسلسل خبر دار کر رہے ہیں۔
بعض ماہرین دفاع کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کی تشویشناک صورت حال، غزہ کی سرحد پر فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے باوجود بعض محرکات ، اسباب اور عوامل ایسے ہیں جو جنگ کو ٹالے ہوئے ہیں۔القدس اسٹڈی سینٹر نے ایک رپورٹ میں ان امکانات کا جائزہ لیا ہے جو غزہ کی پٹی میں جنگ کو روکے ہوئے ہیں۔
1۔۔۔ غزہ کی مشرقی سرحد پر فلسطینیوں کی جانب سے گیسی غباروں اور کاغذی آتش گیر جہازوں کے پھینکے جانے کے باعث اسرائیل سخت مشتعل اور غم وغصے میں ہے۔ غزہ کے ان کاغذی جہازوں کو صیہونی ریاست حقیقی خطرے کے طور پر پیش کررہا ہے۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ اور بعض سیاسی اور عوامی حلقے صیہونی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے کاغذی جہازوں کے اس خوف کے تابوت سے نکلنے اور ان کے انسداد کے لیے غزہ پر فوجی کارروائی مسلط کرے۔ تاہم حکومت دھمکیوں کی حد تک یا محدود حملوں کی حد تک سرگرم ہے۔
حکومت اس لیے بھی غزہ پر جنگ مسلط نہیں کررہی کہ اسے اندازہ ہے کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کی بازیابی کے لیے جاری کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔ اس کے علاوہ اس جنگ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے اسرائیل کو غیرمعمولی نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔
2۔۔۔ علاقائی اور عالمی سطح پر رائے عامہ کا خیال ہے کہ اس وقت امریکا اور اس کے حلیف ممالک اسرائیل اور عرب ممالک کےدرمیان تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر غزہ کی پٹی میں جنگ چھڑتی ہے تو عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان قربت کی امریکی اور صیہونی کوششیں التوا یاناکامی کا شکار ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ عرب ممالک اس وقت شام اور ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے میں الجھے ہوئے ہیں اور صیہونی ریاست کو غزہ پرحملے کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر ایسی حمایت نہیں مل رہی جس کی جنگ کے لیے اسے ضرورت ہے۔
3۔۔ اسرائیل اور فلسطین کے موجودہ داخلی حالات، سلامتی کے لیے درکار تیاریوں کے حوالے سے شاید دونوں فریقی تیار نہیں ہیں۔ کوئی ایک فریق بھی وسیع جنگ نہیں چاہتا اور نہ ہی اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔
تاہم اس کے مزید اسباب ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل کے عسکری اور سیاسی اداروں کے درمیان غزہ کی پٹی میں جنگ کی حمایت اور مخالفت میں ہم آہنگی کا شدید فقدان ہے۔ اسرائیل کا موجودہ سیاسی نظام ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو کم تجربہ کار ہیں۔ ان میں نفتالی بینٹ اور گیلاد اردان جیسے کم تجربہ کار یا نوخیز وزراء ہیں۔ ان کی سوچ ذاتی یا زیادہ سے زیادہ جماعتی وابستگی تک محدود ہے۔
صیہونی فوج اور انٹیلی جنس ادارے بھی یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ مسلسل فوجی مشقوں کے باوجود وہ حال غزہ میں جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں زیادہ سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کسی قسم کی تیاری میں نہیں جب کہ دوسری طرف غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے جا بہ جا اپنے دفاع مراکز قائم کررکھے ہیں۔
4۔۔ اسرائیلی فوج اور حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ اگر غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کرکے حماس کی حکومت گرا دی جاتی ہے تو غزہ کی زمام کار مزید انتہا پسند گروپوں کے ہاتھ میں آسکتی ہے۔ ایسے میں حالات اسرائیل کے قابوب سے باہر ہوسکتے ہیں۔
5۔۔ اسرائیل کی شمالی سرحد یعنی شام کی طرف سے اسرائیل خود کو خطرے میں محسوس کرتا ہے۔ صیہونی ریاست کا کہنا ہے کہ شام کی سرحد پر ایرانی عسکری گروپوں کی سرگرمیاں اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس لیے تل ابیب کی پہلی ترجیح شام کی سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔
6۔۔ عالمی سطح پر جاری بحران بھی اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر حملے سے روکنے کا موجب بن رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی کی مشرقی سرحد پر فلسطینی مظاہرین کی طرف سے پہلے ہی کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے یوم نکبہ پر غزہ میں فلسطینیوں کے پرامن مظاہروں پر طاقت کا استعمال کرکے عالمی سطح پر اپنی جگ ہنسائی اور بدنامی میں اضافہ کیا ہے۔
7۔۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر کسی بھی جنگ سے قبل غزہ کی سرحد پر کنکریٹ کی دیوار کو مکمل کرنا چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کی سرنگوں کی طرف سے خطرات کا تدارک کیا جاسکے اور جنگ کی صورت میں فلسطینی مزاحمت کار سرنگوں کے ذریعے اسرائیلی فوج کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔
8۔۔ ایک خیال ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کو روکنے میں مصر کا بھی کردار ہے۔ غزہ میں حکمراں حماس اور اسرائیل کے درمیان مصر کی ثالثی کے تحت ایک عارضی جنگ بندی کا بھی معاہدہ طے پایا ہے اور مصر غزہ میں حالات کو پرسکون رکھنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔
9۔۔ غزہ کو جنگ کے دھانے تک پہنچنے سے روکنے کا ایک محرک امریکی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ ’صدی کی ڈیل‘ کا فارمولہ بھی ہے۔ امریکا اسرائیل کی منشاء کے مطابق ایک نیا امن فارمولہ لانے کی کوشش کررہا ہے جس کے نفاذ کے لیے فلسطین میں کسی حد تک امن وامان کا قیام ضروری ہے تاہم اگر جنگ چھڑتی ہے تو صدی کی ڈیل کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔